سعودی عرب کا قومی دن

آج عالم اسلام کے مرکزمملکت سعودی عرب کا قومی دن جوش وخروش سے منایا جارہا ہے۔سعودی عرب سمیت دنیا بھر کہ سفارتخانوں میں تقریبات کا اہتمام ہورہا ہے۔مملکت توحید سعودی عرب کا نام ذہن میں آتے ہی انسان خوشی سے سرشار اور نہال ہو جاتا ہے۔ اور اس کے دل میں بیت اللہ اور مسجد نبوی کا پاکیزہ اور مقدس ماحول آجاتا ہے اور انسان تصورات کی دنیا میں گھومتا ہوا بیت اللہ کے صحن اور بیت النبی کے پڑوس مسجد نبوی میں چلا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد و منشا ہے۔ جب کہ مدینہ منورہ آپ کی ہجرت گاہ اور مدفن ہے۔ اور دونوں شہر بے شمار رحمتوں برکتوں اور فضیلتوں کے حامل ہیں مکہ مکرمہ میں جنت کا پتھر حجراسود ہے تو مدینہ منورہ میں روضہ مسجد نبوی جنت کا حصہ ہے۔ اسلامی ورثہ کی مثالی مملکت سعودی عرب کا قومی دن 23 ستمبر ایسا روشن باب ہے جسے امت مسلمہ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ عرب دنیا کی سب سے بڑی مملکت سعودی عرب کی بنیاد 1932 میں شاہ عبدالعزیز آل سعود نے رکھی۔ 87 لاکھ ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے ہوئے اس خطے میں جو کہ بر اعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہے۔ ایک جدید اسلامی اور مثالی مملکت قائم کی گئی تھی۔ جو قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرکے استحکام کا گہوارہ بنی، جسے پائیدار مسلم معاشرے کے طور پر اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کرایا گیا۔ سعودی عرب اقوام عالم میں میں واحد ایسا ملک ہے جس کا دستور قرآن و سنت ہے۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور مسلمانان عالم کیلئے ملی تشخص کا جذبہ ہے۔ سعودی عرب کے حکمران خادمین حرمین شریفین نے امت مسلمہ کیلئے جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے دنیا بھر میں جہاں کہیں اور کبھی امت پر سخت وقت آیا سعودی عرب سب سے پہلے وہاں اعانت اور مدد کیلئے پہنچا۔ بلکہ اگر عادلانہ موازنہ کیا جائے تو امت مسلمہ کیلئے پیش کردہ دیگر اسلامی ممالک کی خدمات سعودی عرب کی خدمات کا عشر عشیر بھی نہیں ہے چاہے فکری و نظریاتی میدان ہو یا معاشی بحران ہو۔ ہر میدان میں سعودیہ عربیہ مسلمانوں کی مدد کیلئے پیش پیش رہا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ اور گہرے مراسم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی افرادی قوت ان ممالک میں موجود ہے، بلکہ پاکستان نے ان ممالک کی ترقی و استحکام کیلئے کلیدی کرداربھی ادا کیا ہے۔ ان ممالک میں بینکنگ کو پروان چڑھانا ہو، یا آئی ٹی کو فروغ دینا ہو، فضائی سروس کا آغاز کرنا ہو،یا بنجر صحراؤں کو خوش نما باغات میں بدلنا ہو، زیر زمین سرنگوں اور سڑکوں کی تعمیر ہو یا انتظامی و سکیورٹی اداروں کی تشکیل، عسکری تربیت ہو یا انٹیلی جنس، پاکستان نے ہر میدان میں ایک بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔ ان تمام امور سے ہٹ کر سعودی عرب کی سرزمین حرمین شریفین کی سرزمین ہے۔ حرمین شریفین کی حرمت، تقدس، تحفظ پوری امت مسلمہ کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیزہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے کسی سے پیچھے نہیں رہے گا۔
اہل پاکستان سعودی عرب اور خادمین حرمین شریفین سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ اور سعودی عرب کی ترقی و خوشحالی کو اپنی ترقی و خوشحالی سمجھتے ہیں۔ آل سعود کی حکومت میں توحید کا علم بلند ہوا، خرافات و بدعات کا خاتمہ ہوا اور شرک کا کھلے عام بطلان کیا گیا۔مملک سعودیہ عربیہ میں نیحدود اللہ کا نفاذ ہے جہاں پر قاتل کو قصاص میں قتل کیا جاتا ہے اور چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں اور اس نظام عدل میں چھوٹے بڑے اور امیر و غریب کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی۔ بلکہ شرعی حدود کے نفاذ کا اسلام جس طرح سے مطالبہ کرتا ہے ہے اسی طرح سے حدیں قائم کی جاتی ہیں۔ کسی اور اسلامی ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔ شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں ہے جنہوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور انکی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب مین مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کیلئے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔
میں نے گزشتہ دنوں ریاض میں خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان کیمشیر سعد بن ناصر الشثری سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ امورخاص طو رپر پاکستان میں سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال اور بحالی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جس میں انہیں پاکستان میں حالیہ بدترین سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہ کاریوں سے آگاہ کیا۔ سعد بن ناصر نے کہا کہ پاکستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کی ہر مشکل وقت میں ہم نے مدد کی ہے۔انکا کہنا تھا کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت پر سعودی عرب پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے عطیات مہم شروع کررہا ہے۔ (جاری)