پاکستان کا واحد علاج’اچھی تعلیم‘

قائداعظم محمد علی جناح کا یہ فرمان کہ‘‘تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، دنیا اتنی تیزی سے ترقی کررہی ہے کہ مطلوبہ نتائج میں پیشرفت کے بغیر نہ صرف ہم اقوام عالم سے پیچھے رہ جائینگے بلکہ ہوسکتا ہے ہمارا نام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے ’’، ہماری درسی کتب کے صفحہ اول پر درج ہوتا ہے۔ شاید اس کا مقصد دعوت فکر ہے کہ ملک کے معاشی، سماجی اورسیاسی استحکام کے لئے تعلیم ہی وہ واحد حل ہے جس میں سرمایہ کاری کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہ اصول ثابت شدہ ہے کہ جن قوموں نے تعلیم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی بنیاد مضبوط کی وہ داخلی اور خارجی محاذ سمیت ہر میدان میں کامیاب و کامران ہیں۔مگر افسوس ماضی میں ہماری حکومتوں کے لئے کبھی بھی تعلیم پہلی ترجیح نہیں رہی، پرائمری سے لیکر اعلی تعلیم تک مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، مثلاً یہ بحث طویل عرصے سے جاری ہے کہ ملک میں دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں، جامعات کیلئے فنڈز نہیں، معیار تعلیم بہتر نہیں ہورہا، اساتذہ اور طلباء کے مسائل بھی حل نہیں ہو سکے، رہی سہی کسر کورونا بحران نے پوری کر دی۔ سارے معاملے میں موجودہ حکومت ہی مکمل قصور وار نہیں ہے۔ ہماری جامعات اور تعلیمی ادارے بھی کہیں نہ کہیں بالواسطہ یا بلاواسطہ ذمہ دار ہیں۔تعلیم کے حوالے سے کئے جانیوالے اقدامات کے متعلق ایک حالیہ اجلاس میں اس انکشاف نے حیرت میں مبتلا کردیا کہ سب اچھا اور بہترین جامعات کا ٹائٹل لئے ملک کی بڑی جامعات کا معیار تعلیم مسلسل گر رہا ہے،پہلے کرونا نے اس میں اپنا کردار ادا کیا اور اب ملک میں جاری معاشی اور سیاسی بحران جلتی آگ پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ہماری متعدد جامعات میں تحقیق کیلئے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے، بہت ساری جامعات کو تو ایک روپیہ بھی اس مد میں نہیں ملتا۔ اساتذہ اور ملازمین کئی ماہ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں، ڈویلپمنٹ فنڈز سالوں بعد منظور اور فراہم ہوتے ہیں، افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ تعلیم کو درپیش ان چیلنجز کا مقدمہ کہاں بیان کیا جائے۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں صرف ایک فیصد طلباء اعلی تعلیم کے مدارج تک پہنچ پاتے ہیں یعنی بظاہر 24/25 لاکھ افراد تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اور ہم تعداد کے اعتبار سے ایک فیصد کو بھی تسلی بخش معیار تعلی فراہم نہیں کر پا رہے، یہ محض لمحہ فکریہ نہیں بلکہ قائدکے فرمان کے مطابق صفحہ ہستی سے مٹ جانے والی راہ پر ہیں۔ ایسے میں ہم اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ نیوٹن کل کو ملک میں ایجادات کی لائن لگا دیں گے!اقتدار کے اعلی ایوانوں میں کبھی ایک ہفتے کا سیشن بھی اس بابت طلب نہیں کیا گیا کہ ہمارا معیار تعلیم کس نہج پر کھڑا ہے، ہم کیسے بہتری کی طرف جا سکتے ہیں اور مسائل کا حل کیا ہے۔ محض فنڈز ہی بنیادی مسئلہ نہیں بلکہ ان کو کہاں موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ قوموں کی تقدیر کا رخ بدلنے والے اس اہم موضوع کو اسمبلیوں میں بیٹھے ہمارے نام نہاد نمائندے بھی کبھی زیر بحث نہیں لائے۔ قومی مشترک نصاب اس جانب جانے کی ایک کڑی محسوس ہوتا ہے مگر وہاں بھی ہمارے قائدین راضی نہیں ہیں کیونکہ ایسا کوئی اقدام جس سے اس ملک کے لوگوں کو شعور ملنے کی تھوڑی سے بھی رمق نظر آتی ہو اسے فوری طور پر تلف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چاہیے تو یہ کہ ملک کی آبادی کے ستر فیصد نوجوان آئندہ انتخابات کو تعلیم کا ریفرنڈم بنا دیں، بدقسمتی یہ بھی ہے کہ براہ راست سٹیک ہولڈر طبقہ یعنی طلبا کو کسی بھی سطح پر مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا۔ ان کو جامعات کی سطح پر نہ ہی ایچ ای سی اجلاس میں نمائندگی دی گئی ہے۔ حالانکہ ان کی موثر شمولیت کے بغیر تمام مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اب اساتذہ اور دیگر ملازمین کی تنظیمیں جامعات میں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرتی اور نتائج حاصل کرتی ہیں گر طلباء اپنے حق کیلئے آواز بلند کریں تو انہیں خاطر میں نہیں لایا جاتااور خبر یہ چلتی ہے کہ بچے غنڈہ گردی کر رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے اگر ہم واقعی تعلیمی نظام کے ذریعے انقلاب پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں ایک طویل سنجیدہ اور بامقصد مکالمے کو شروع کرنا ہوگا، ایک قومی کمیٹی تشکیل دینا ہو گی جس میں وائس چانسلرز، اساتذہ، طلبائ، ماہرین تعلیم، معا شی و سماجی ماہرین، قانون دان، صحافی اور دانشور شامل ہوں جنہیں ایک ٹائم فریم دے کر بنیا دی مسائل کے حل کا خاکہ تیار کرنے کا ٹاسک دیا جائے، ہر مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کے مشورہ سے مرتب کیا جائے۔ قومی کمیٹی قومی مفاد میں کام کرے۔ یہ موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اساتذہ اور طلباء کی بھی ذمہ داری ہے ک وہ اسے قومی مفاد میں ترقی کا زینہ سمجھتے ہوئے پاکستان کی بقاء کے لئے اپنا آپ وقف کریں تاکہ علم کے چراغ جلیں اور اندھیرا چھٹ جائے۔آج ہم سب کیلئے ضروری ہے کہ ہم جان لیں کہ معیشت ، غربت، بیروزگاری، صحت کے مسائل، آبادی کے مسائل، توانائی بحران، دفاع یہ سب ہمارے بنیادی مسائل نہیں ہیں، ہمارا بنیادی اور واحد مسئلہ ہمارا نظامِ تعلیم ہے ، اور ان تمام مسائل کا واحد حل اس فرسودہ نظامِ تعلیم کو بدلنا ہے۔