
23 ستمبر، 2010ءکونیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2013ءمیں امریکی فوجی زنداں فورٹ ورتھ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن بیہوش رہی۔ بالاخر وکیل کی مداخلت پر اسے طبی امداد دی گئی۔۔۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی سائنس دان ہے جسے امریکی حکومت نے 2003ءمیں اغوا کر کےاامریکہ حکومت نے جبراً غیر قانونی طور پر قید کیا ہوا ہے اور اس پر مسلسل امریکی خفیہ اور و خوفناک ایجنسی CIA کی جانب سے ظلم و جبر کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کراچی میں پیدا ہوئی۔ 8 سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد بوسٹن ٹیکساس میں اور جامعہ ٹیکساس میں کچھ عرصہ رہیں پھر وہاں سے میساچوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی (MIT) چلی آئیں اور اس ادارہ سے نیوکلر سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔ یہ دیکھ کر عافیہ کچھ دیر کراچی میں روپوش ہو گئی۔ 30 مارچ، 2003ءکو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈا کی طرف روانہ ہوئی مگر راستے سے غائب ہو گئی بعدمیں خبریں آئیں کہ ان کو امریکنز نے اغوا کر لیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی اور بڑے بچے کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ۔ مقامی اخباروں میں عافیہ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر بعد میں وزیروں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔لیکن برطانوی صحافی خاتون رڈلی نے عمران خان کے ساتھ میڈیا کانفرنس میں انکشاف کیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جو وہاں بے حد بری حالت میں قید تھی۔ پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو 27 جولائی، 2008ءکو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جا سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین قرار دیا۔افغانستان میں امریکی فوجیوں نے دوران گرفتاری عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا، تب امریکی فوجی معالجین نے عافیہ کی طبی حالت کو تشویشناک بتایا۔ امریکیوں نے الزام لگایا کہ عافیہ نے امریکی فوجی کی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی جس پر انھوں نے اس پر گولیاں چلا دیں۔ اسلام آباد عدالت کی میں ایک درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ پرویز مشرف دور میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا۔ اگست 2009ءمیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ حکومت 2 ملین ڈالر تین امریکی وکیلوں کو دے گی جو عافیہ صدیقی کے لیے "امریکی عدالت" میں پیش ہوں گے۔خیال رہے کہ لاہور کی عدالت عالیہ نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ خدشہ تھا کہ رقم خ±رد برد کر لی جائے گی۔ عدالت میں درخواست گزار نے کہا تھا کہ امریکی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں، اس لیے یہ پیسے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کر کے خرچ کیے جائیں۔امریکی عدالت کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو جولائی 2008 میں افغانستان کے سکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضے سے کیمیائی اجزا کی تراکیب اور چند ایسی تحریریں برآمد ہوئی تھیں جن میں نیویارک پرحملے کا ذکر تھا۔ بعدازاں انھیں امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کے الزامات کے تحت 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔الزام دہشت گرد تنظیم سے وابستگی پر لگایا گیا اور سزا فوجیوں پر حملہ کرنے کے جرم میں دی گیء؟ امریکی اہلکاروں پر حملہ دفاع کے لئے کیا مگر منصف کو یہ حقیقت دکھائی نہ دی ؟ ایک نہتی عورت جیل میں قید بے بس پرجبری زیادتی کی کوشش کی جائے اور وہ اپنے دفاع کے لئے اہلکاروں کا اسلحہ اپنے
دفاع کے لئے استعمال کرے تو امریکہ کی متعصب عدالت میں اسے جرم سمجھا جائے اور 86 برس سزا سنا دی جائے ؟ اس سے بھی شرمناک حقیقت یہ ہے کہ عافیہ پاکستانی شہری ہے اور کسی حکومت نے اسے ملک واپس لانے کے لئے عملی کوشش نہیں کی۔ عافیہ صدیقی کا ہاتھ روز حشر ایک ایک کے گریبان پر ہو گا۔