خالصتان تحریک اور ’’را‘ ‘
سبھی جانتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں دہلی کی سازشوں کی بدولت پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر آئی ہوئی ہے، شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں فوجی قافلہ پر دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں ایک افسر سمیت 6 سکیورٹی اہلکار ، گوادر کی تحصیل اورماڑہ میں اوجی ڈی سی ایل کے قافلے پر حملے میں 7 بہادراہلکار اور 7 گارڈز نے جام شہادت نوش کیا۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا لہذا دہشتگردی کے خاتمے کیلئے دنیا بھر کو مجموعی طور پر پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ اس امر میں کسی کو ذرا سا شبہ بھی نہیں کہ پاکستان کی حکومت اور عوام نے عالمی دہشتگردی کے خاتمے میں جو کردار ادا کیا ہے ، اس کا عشرِ عشیر بھی کسی دوسرے نے نہیں کیا۔ اس بات سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ پاک قومی سلامتی کے اداروں نے دہشتگردی کے اس ناسور کو بڑی حد تک ختم کر دیا ہے حالانکہ اس حوالے سے خود پاکستانی قوم اور افواج کو جانی اور مالی دونوں لحاظ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا، امید کی جانی چاہیے کہ دنیا پاکستان کی ان قربانیوں کا اعتراف مزید موثر ڈھنگ سے کرے گی۔
دوسری جانب دہلی کے حکمران محض مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں کے خلاف ہی بدترین بربریت روا نہیں رکھے ہوئے بلکہ بھارت کے دیگر حصوں میں بھی اقلیتوں کے جان و مال کسی طرح محفوظ نہیں۔ آئے دن گئو ہتیا کے نام پر بے گناہ مسلمانوں سے تشدد کر کے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستانی سکھوں پر بھی ہر طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جس کی بدولت تحریک خالصتان بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ خالصتان تحریک کا تذکرہ کرتے اگر اس دلچسپ رجحان کا ذکر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا، مبصرین کے
مطابق سکھ برادری میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جس میں آزادی کی حمایت کیلئے سکھ موسیقی (بھنگڑا، پنجابی ریپ) کو استعمال کیا جارہا ہے۔علیحدہ وطن کے حوالے سے دباؤ کے خلاف سینہ سپر ہونا ہندوستانی پنجاب میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ سکھ پہلی ہی پوری دنیا میں پنجابی بھنگڑا اور موسیقی کی مشہور قسم ریپ کے علمبردار ہیں۔سکھ اپنی ثقافت اور اپنی تاریخ کو یاد رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اس ضمن میں کنول گریوال کا گانا ’’اکھاں کھول‘‘ اور جیزی بی کا گانا ’’ پُت سردار دا ‘‘ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب پورے بھارت میں جنونی ہندوئوں کی جانب سے سکھ برداری پر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ اترپردیش میں بھی 5000 سکھ خاندانوں کو اپنی قیمتی اراضی سے انخلا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اکال تخت کے سابقہ جتھے دار گیانی پورن سنگھ نے بجا طور پرکہا ہے کہ سکھ قوم کو کسی رد عمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور دہلی کے حکمرانوں نے اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح ہندوئوں اور سکھوں کے مابین نیا ’’ خونی رشتہ ‘‘ قائم کیا ہے اس کا نتیجہ ’’ تاریخ ‘‘ اور ’’ ست سری اکال واہگرو ‘‘ پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو جنونیوں کی ذہنیت اور سکھوں کے بارے میں ان کے معاندانہ عزائم کے بارے میں بابا گرو نانک دیو جی بہت پہلے کہے گئے تھے کہ ‘‘ نال کراڑاں دوستی کوڑی ہائے ہائے ‘‘یعنی ہندئوں سے دوستی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا اور ہمیشہ برائی پیدا کرتا ہے ۔ واضح رہے کہ سکھ مذہب کے صحیفے ’’ جپ جی صاحب ‘‘ میں گرو نانک جی کا یہ قول صاف لفظوں میں موجود ہے ۔ سکھ دانشور اس امر کا بر ملا اظہار کر تے آئے ہیں کہ بھارت کی آزادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی سکھ خواص و عوام کو احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ انھوں نے کانگرسی رہنمائوں کی باتوںکے بہکائوے میں اگر چہ ہندوستان میں شمولیت تو اختیار لی مگر سکھ قوم کا مستقبل کسی بھی حوالے سے بھارت میں محفوظ نہیں لہذا انھوں نے مختلف سطحوں پر پہلے الگ پنجابی صوبے کے قیام اور بعد میں بھارت سے آزادی کی تحریک شروع کر دی اور یہ تحریک کسی فرد واحد یا گروہ کی جانب سے نہیں بلکہ سکھوں کی واحد نمائندہ تنظیم ’’ گرودوارا پربندھک کمیٹی ‘‘ اور اس کے سیاسی ونگ ’’ اکالی دل ‘‘ کے زیر سایہ شروع ہوئی ۔
البتہ اس کے بعد مشرقی پنجاب میں ہندوئوں کے آلہ کار پولیس چیف ’’ کنور پال سنگھ گل ‘‘ کے ہاتھوں بے گناہ سکھوں کو ختم کرنے کے بعد بھارت کی ہندو قیادت نے بظاہر اطمینان کا سانس لیا تھا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ ہندو بربریت کی بنیاد پر سکھوں کی مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو افراتفری کے ایسے محیب غار میں دھکیلا جا چکا ہے جہاں سے اب کوئی حریت پسند تحریک بر آمد نہیں ہو گی ۔ مگر کچھ عرصہ قبل ’’ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ‘‘ کے جنم دن کی تقریبات میں جس پیمانے پر سکھ نوجوانوں نے شرکت کی اور بھنڈرانوالہ کو ’’ سن آف دی سینچری ‘‘ قرار دیا ، اس نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں جس سے بوکھلا کر RSS کے سابقہ چیف ’’ سُو درشن ‘‘ اور حالیہ سربراہ ’’ موہن بھاگوت ‘‘ نے برملا کہا کہ ہندوئوں اور غیر ہندوئوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اس امر کی غماز ہے کہ ہندوئوں اور دیگر تمام بھارتی اقلیتوں کے مابین ’’ مہا بھارت ‘‘ نا گزیر ہو چکی ہے اور اس مہا بھارت میں مسلمانوں ، سکھوں ِ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کا کچلا جانا تقریباً طے شدہ ہے ۔ ہندئوں کے ہاتھوں ہزاروں سکھوں نے جان دے کر گویا ان کے ساتھ’’ خونی رشتہ ‘‘ تو قائم کر ہی لیا ہے ، اب بھائی رنجیت سنگھ ، سمرن جیت سنگھ مان ، گیانی پورن سنگھ ، یا کسی دوسرے کی زیر قیادت ہندوئوں اور سکھوں کے مابین قائم ہوا یہ نیا ’’ رشتہ ‘‘ کیا رنگ لاتا ہے ۔ اس کا صحیح فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر یہ تقریباً طے ہے کہ بھارت سرکار اور سکھوں کے مابین پھر نیا محاذ کھلنے والا ہے ۔ یہ اندازے اور پیش گوئیاں کہاں تک صحیح یا غلط ثابت ہوں گی ، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔