جمعرات ‘ 15؍ صفر‘ 1443ھ‘ 23 ؍ ستمبر2021ء
لاہور سمیت کئی شہروں میں کرونا کی اضافی پابندیاں ختم ہو گئیں
بڑے بے چین تھے لاہوریے اور دوسرے شہروں میں رہنے والے لوگ کہ کب کرونا کا زور کم ہو اور انہیں ایک بار پھر شہروں کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے۔ اب لگتا ہے خدا نے ان کی سن لی اور پاکستان میں کرونا کی شدت میں کمی آ رہی ہے۔ یہ سب حکومت کے سخت حفاظتی اقدامات اور قانون پسند شہریوں کی طرف سے حکومتی احکامات پر عمل کا نتیجہ ہے۔ اگر لوگ ماسک پہننے اور فاصلے کی پابندی پر عمل نہ کرتے، غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے پرہیز نہ کرتے اور سب سے بڑھ کر کرونا ویکسین نہ لگواتے تو یہ کامیابی اتنی جلد حاصل نہیں ہو سکتی تھی ۔ خدا کا شکر ہے کہ اب کرونا کی شدت میں کمی آ رہی ہے۔ مثبت کیسوں کی شرح 4 فیصد تک آگئی ہے۔ حکومت نے بھی پابندیوں میں کمی کی جس کے بعد مارکیٹیں اب ایک دن بند ہوں گی۔ شادی ہالز میں ویکسین لگوانے والے 200 افراد کی اجازت ہو گی۔ اس کے ساتھ مزارات بھی کھل گئے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ ایک بار پھر زندگی نے موت کو شکست دیدی ہے اور دنیا بھر میں کرونا نے جو وحشت اور دہشت پھیلا رکھی تھی اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس وبا نے ہماری معیشت کو ہی تباہ نہیں کیا ہم سے روزگار کے مواقع بھی چھین لئے جس کی وجہ سے بھوک اور ننگ نے لوگوں کی اکثریت کو متاثر کیا۔ اب کاروبار حیات بحال ہونے سے لوگوں کے مرجھائے چہرے پھر کھل اٹھے ہیں اس پر ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ
زمیں کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے
خدا کرے یہ کہکشاں یونہی سجی رہے
٭٭٭٭٭
یوم الوطنی پر سعودی عرب میں 70 لاکھ سے زیادہ اشیا سستے داموں فروخت ہوں گی
یہ ہوتی ہے وطن سے محبت ۔ یہ ہوتا ہے ہم وطنوں کو وطن کی محبت سے روشناس کرانے اور اس دن کی برکتوں سے لطف اٹھانے کا موقع فراہم کرنا۔ پوری دنیا اپنے خصوصی ایام میں مذہبی ہو یا غیر مذہبی یا ملی تقریبات۔ تمام اقوام کے مختلف، ممالک کے لوگ اس دن عام افراد اور مستحق لوگوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے جو آج سعودی عرب میں کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں تمام تجارتی مراکز اور آن لائن بزنس کرنے والے ادارے 70 لاکھ سے زیادہ اشیاء رعایتی قیمت پر فروخت کریں گے تاکہ تمام شہری ان کو خرید سکیں۔ اس طرح ہزاروںلوگ اپنی من پسند اشیاء خریدنے کے قابل ہو جائیں گے اور ان کے دل سے اپنے حکمرانوں کے لئے دعائیں نکلیں گی۔ یہی زندہ قوموں کا وطیرہ ہوتا ہے۔ کاش ہمارے حکمران اور کاروباری و تجارتی لوگ بھی ایسے غریب پرور فیصلے کر کے وطن سے محبت کو فروغ دیں۔ ہمارے ہاں نجانے کیوں اس کے بالکل اُلٹ ہوتا ہے۔ ایسے خاص موقعوں پر ہر چیز کے دام چڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ ان ایام کی خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اشفاق احمد مرحوم ہمیشہ یہی درس دیتے تھے کہ ’’رعایتیں دو تاکہ ہمیں بھی رعایت ملے‘‘ جتنی زیادہ رعایتیں، سہولتیں ہم پھیلائیں گے اتنا ہی ہمارا معاشرہ خوشحال ہو گا۔
٭٭٭٭٭
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس ، نواز شریف کی 185 کروڑ کی جائیدادیں بیچنے کا حکم
یہ کوئی چند کروڑ روپے کی بات نہیں ایک ارب 85 کروڑ روپے کا معاملہ ہے۔ اتنی بڑی رقم کی وصولی کوئی عام کارروائی نہیں ۔ اب معلوم نہیں بڑے میاں جی کے نام اتنی جائیدادیں ہیں بھی یا نہیں۔ بے شک میاں جی عام آدمی نہیں پاکستان کے متمول ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ مگر کیا یہ ممکن ہے کہ سب کچھ ان کے نام ہے۔ اب یہ دردسری احتساب بیورو کی ہے کہ وہ کھوج لگائے کہ میاں جی کی جائیدادیں کہاں کہاں ہیں پھر ان کی فروخت کر کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں ان کو کیا گیا جرمانہ وصول کرے۔ اس کیس میں ان کو 8 سال قید کی سزا بھی ہوئی ہے۔ اس وقت نواز شریف لندن میں مقیم ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں یہ جائیدادیں اگر مل گئیں تو فروخت ہونگی۔ یہ سارا عمل بذات خود عبرت کی مثال ہے۔ انسان کتنا کچھ کما لیتا ہے۔ بنا لیتا ہے۔ مگر بھول جاتا ہے کہ قدرت کاایک اشارہ ان سب سے محروم کر سکتا ہے۔ اربوں کے مالک بھی تہی دست ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران ہوں یا اشرافیہ سب کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ہم جو کچھ بو رہے ہیں وہی ہمیں کل کاٹنا بھی ہوتا ہے۔ احتساب ضروری ہے اس میں اگر انتقام کا عنصر داخل ہو جائے تو انتقام در انتقام کا ایک منفی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں کیا نواز شریف کیا آصف زرداری کیا عمران خان سب اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اس لیے صرف حقائق مدنظر رکھ کر احتساب کرنا ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭
دریا پر بند بنانے کی بجائے دم کرنے والا سابق ایم این اے
دریائے سندھ عرصہ دراز سے سیلاب کے دنوں میں اپنے دونوں کناروں پر زرعی زمین کو کٹائو کی وجہ سے نقصان پہنچاتا ہے۔ جب جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی لوگ اپنے روحانی رہنمائوں کے پاس جاتے اور دریا برد ہونے والی زمینوں کو بچانے کے لئے ان سے دعا کی درخواست کرتے تھے۔ پہلے زمانے میں واقعی خدا رسیدہ بزرگ ہوتے تھے ان کے کلام میں تاثیر بھی ہوتی تھی شاید اسی وجہ سے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ حالانکہ جدید تحقیقات اور علوم کی روشنی میں اگر دریا کے کٹائو کو روکنا ہے اس کے کنارے کی آبادیوں اور زرعی اراضی کو دریا برد ہونے سے بچانا ہے تو دریا کے کنارے بڑے بڑے حفاظتی بند باندھے جاتے ہیں جنہیں سپر بند کہتے ہیں۔ اب اس علاقے کے یہ سابق ایم این اے فیاض الحسن جو زمیں کو دریا سے بچانے کے لئے دم وغیرہ کر رہے ہیں اگر اپنے برسوں پر پھیلے دور اقتدار میں یہاں اپنے ترقیاتی فنڈز سے بند ہی بنوا دیتے تو ہر سال دریائے سندھ کے کناروں پر تباہی نہ مچتی۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ صرف یہاں ہی کیا ہمارے ہر شعبہ میں ایسا ہی ہوتا ہے اور رونے دھونے والوں کو خدا کی مرضی کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اگر دریائوں کے کنارے بنے پشتے اور بند مضبوط ہوں تو دریا بھی چپکے سے اپنی تمام شوریدہ سری کے باوجود ان سے سر ٹپکتا ہوا خاموشی سے گزر جاتا ہے ورنہ سیلاب کے باعث کٹائو تو ہونا ہی ہے جو صرف دعا اور دم سے رک نہیں سکتا آزمائش شرط ہے۔ ہاں خوش عقیدگی اپنی جگہ جو چاہے کرو کوئی پابندی نہیں۔