کھیل بھی بین الاقوامی سیاست کا حصہ ہیں
ان دنوں پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر جو معاملات بہت اہمیت کے حامل ہیں ان میں سے ایک کا تعلق کرکٹ کے کھیل سے ہے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں پہلے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان میں آکر سکیورٹی خدشات کو بنیاد بناتے ہوئے طے شدہ میچ کھیلے بغیر واپس جانے کا اعلان کردیا اور پھر انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان آنے سے ہی انکار کردیا۔ ان دونوں ٹیموں کے ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان کو شدید دھچکا لگا کیونکہ حالیہ برسوں میں پاکستان سخت حالات کے دوران کرکٹ کے حوالے سے ہی ان دونوں ملکوں کی مدد کرچکا ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دونوں ممالک پاکستان کے اچھے سلوک کو یاد رکھتے ہوئے یوں انکار نہ کرتے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس بارے میں بھی شواہد موجود ہیں کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے جو فیصلے کیے ان کے پیچھے سیاسی وجوہ موجود تھیں اور یہ بات زیادہ افسوس ناک ہے۔
کھیلوں، ادب و تحقیق اور پرفارمنگ آرٹس سے متعلق عام طور پر یہ خیال پایا ہے کہ انھیں سیاسی معاملات سے الگ کر کے دیکھا جانا چاہیے لیکن یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہی ٹھیک ہے ورنہ یہ تمام شعبے آج نہ صرف بین الاقوامی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں بلکہ بہت سے ممالک عملی طور پر اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کسی ملک کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے کھیلوں وغیرہ کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے بالعکس صورتحال کیسے پیدا کی جاتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ اس کی تازہ مثال ہے۔ نیوزی لینڈ نے جن سکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر پاکستان میں میچ کھیلنے سے انکار کیا ان کی تفصیلات اب آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں جن سے یہ پتا چل ہے کہ اس میں بھارت ملوث ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے ہمراہ گزشتہ روز جو پریس کانفرنس کی اس میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے بارے میں دنیا بہت اچھی طرح جانتی ہے اور یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ بھارت کس طرح پاکستان کو بین الاقوامی برادری کے سامنے بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین ڈس انفرمیشن لیب کے محققین کی وہ جامع رپورٹ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بھارت نے پندرہ سال تک ذرائع ابلاغ کے ساڑھے سات سو سے زائد جعلی اداروں اور دس سے زائدغیر فعال تنظیموں (این جی اوز) کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی رائے کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس حوالے سے ایک ایسے پروفیسر کا نام بھی استعمال کیا گیا جو 2006 ء میں وفات پاچکے ہیں۔ پروفیسر لوئیس بی سوہن کے انتقال کے بعد بھارت کی طرف سے ان کے نام سے ایسی چیزیں سامنے لائی گئیں جن کا مقصد پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔
یورپی یونین ڈس انفرمیشن لیب نے جس بھارت نواز نیٹ ورک کا پتا لگایا وہ اپنی نوعیت کا واحد نیٹ ورک نہیں ہے اور نہ ہی بھارت کی طرف سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی یہ پہلی یا آخری کوشش تھی۔ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے جن سکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا ان کے پیچھے ایسی ہی ایک کہانی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، گزشتہ ماہ کے دوران سوشل میڈیا پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے احسان اللہ احسان کے نام سے ایک پوسٹ سامنے آئی جس میں نیوزی لینڈ کے کرکٹ بورڈ اور حکومت سے کہا گیا کہ اگر انھوں نے اپنی ٹیم پاکستان بھیجی تو اسے حملے کا نشانہ بنایا جائے گا۔ اسی پوسٹ کو بنیاد بنا کر بھارت کے ’دی سنڈے گارڈین‘ نامی اخبار کے بیوروچیف ابھینندن مشرا نے 21 اگست کو اخبار میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں احسان اللہ احسان کا حوالہ دے کر یہ دعویٰ کیا گیا کہ داعش پاکستان میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ مشرا نے اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے بھی رابطہ کیا تاکہ رپورٹ میں ان کا موقف چھاپ کر اسے وقیع بنایا جاسکے۔ نیوزی لینڈ کی طرف سے جو جواب دیا گیا اس میں سکیورٹی کی صورتحال پر کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا گیا، اور آئی سی سی مشرا کی بات کو اس قابل سمجھا ہی نہیں کہ اس کا کوئی جواب دیا جائے۔
اس پوری صورتحال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانے کے لیے جو سب سے اہم ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے وہ پروپیگنڈا ہے اور اس سلسلے میں میڈیا اور این جی اوز کے ذریعے غلط معلومات کو پھیلا کر اپنے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ بھارت اس حوالے سے پاکستان سے کہیں آگے ہے اور اب تک سامنے آنے والی کئی مثالوں سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ وہ جھوٹی معلومات پھیلا کر پاکستان کو ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب پاکستان کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کھیل کے میدان ہوں یا ادب و تحقیق کی دنیا اسے ہر جگہ اپنے سب سے بڑے حریف بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر طرح سے تیار رہنا ہوگا، بصورتِ دیگر ماضی میں پیش آنے والے واقعات کی طرح بھارت کسی بھی معاملے پر پاکستان کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر متاثر کرنے کے لیے جعلی ذرائع ابلاغ سے بھی کام لے گا، غیر فعال تنظیموں کو بھی استعمال کرے گا اور ایسی معلومات بھی سامنے لائے گا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، اور جب تک پاکستان ، بین الاقوامی برادری یا عالمی اداروں کو اس سب کی خبر ہوگی اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔