ٹی وی نامہ اسلم اظہر 3
میں اس دوران میں ایک اور مکان بدل چکا تھا جسے ایک انتہائی مُشفق بزرگ سے کرائے پر لیا تھا ۔ تاہم بہت بعد میں مجھے پتہ چلا کہ مکان دراصل بورڈ آف ریوینیو کے ایک اعلیٰ افسر کا تھا لیکن اپنے ایک بزرگ کے نام پر بنایا گیا تھا تا کہ اُن افسر صاحب پر حیثیت سے بڑھ کر جائیداد بنانے کا جائز الزام نہ لگ سکے!یہ مکان ایک کوٹھی کا اوپر کا پورشن تھا اور کافی آرام دہ تھا کہ سبزی اور فروٹ منڈی بالکل سامنے ہی تھی تو بچوں اور بڑوں کے لیے پھل اور سبزیاں سستی اور اچھی مل جاتی تھیں۔ کئی برس کے بعد جب اُن افسر صاحب نے اپنے ریٹائر ہونے پر مکان اپنے دو جوان، تنو مند اور ریش بردار بیٹوں کو نابالغ قرار دیتے ہُوے اُن’’بچوں‘‘ کے نام منتقل کرنا تھا تو میرا کرایہ دار ہونا اُن کے لیے گلے میں پھنسی ہڈی بن گیا اور میری مصیبت آگئی۔ موصوف مکان اس لیے خالی کراناچاہتے تھے کہ ’’کم سِن‘‘بچوں کا اور کوئی ٹھکانہ نہ تھا تو وہ اپنی سِن رسیدہ نانی یا دادی کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔میرا موقف یہ تھا کہ حضور میں مکان خالی کردوں گا مگر مجھے کوئی اُتنے ہی کرائے کا مکان ڈھونڈ لینے دیں۔ میں کرایہ بڑھانے پر بھی تیار تھا مگر وہ مکان خالی کرانے پر مُصر تھے۔ اس لیت و لعل میں کچھ مہینے گزر گئے تو اُن بورڈ آف ریوینیو کے کافی بڑے ریٹائر ڈافسر صاحب نے مجھ پر مقدمہ دائر کر دیا۔ ضلع کچہری کے ایک مجسٹریٹ صاحب کے سامنے تو میں خود ہی پیش ہُوا اور اُ ن مجسٹریٹ صاحب نے ظاہر ہے میرے خلاف فیصلہ دیا اور مجھے کچھ مہلت دی کہ مکان خالی کر دوں۔میں پھر 1972کی مکان کی تلاش والی پوزیشن پر آ گیا۔ اس دوران میں ضیائی مارشل لاء وارد ہو گیا تو اُن بورڈ آف ریوینیو کے سابق ممبر صاحب نے میرے خلاف مارشل لاء کی کسی شق کے تحت مجھ پر تقریباً فوجداری مقدمہ دائر کر دیا۔ میرا چھوٹا بھائی اُس وقت میجر تھا اور کراچی ہی میں تعینا ت تھا مگر میں گورنر ہاؤس میں ایک بریگیڈئیر صاحب کے سامنے پیش ہُوا۔ اس دفعہ میری درخواست یہ تھی کہ یہ شخص جھوٹ بول کر مجھ سے مکان خالی کروانا چاہ رہا ہے۔ جھوٹ یہ بول رہا ہے کہ اس کے بیٹے نابالغ ہیں جب کہ بیٹے صاحبان مجھ سے بھی چار ہاتھ آگے بالغ ہیں اور لمبی لمبی داڑھیاں لیے پھرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بریگیڈئیر صاحب میرے ساتھ انتہائی شرافت سے پیش آئے۔ کہا،’’آپ کو مکان تو کسی نہ کسی دن خالی کرنا ہی ہو گا کہ آپ کی مِلکیت نہیں ہے۔ تو آپ تین ماہ میں مکان خالی کر دیں۔‘‘ لیکن اسی دوران میں مجھے ہائی کورٹ سندھ سے بھی نوٹس آ گیا۔ مجھے ایک مجھول سا کم قیمت وکیل کرنا پڑا جو پیشی پر تھر تھر کانپنے لگا کیوں کہ بورڈ آف ریوینیو کے سابقہ ممبر صاحب نے خالد اسحاق جیسا بے حد مہنگا اور بے حد وقیع وکیل کر رکھا تھا اور وہ سامنے ہی ہائی کورٹ کے جج صاحب کے پاس بیٹھا نظر بھی آرہا تھا۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔مجھے پھر سے پے درپے فلیٹ اور گھر بدلنے پڑے تو محترمہ نانی صاحبہ یاد آ گئیں حالاں کہ اُن بزرگ خاتون کو میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ اور یہ سب شاخسانہ تھا پنڈی سے کراچی تبادلے کا جس کا آرٹ کی دنیا میں کوئی جواز نہیں ہوتا۔ہاں فوج، کلرکی اور بیورو کریسی میں ہوتا ہے۔ بل کہ بہت ہوتا ہے۔تاہم پی ٹی وی نے جواز تلاش لیے تھے ۔ ایک جواز بھُٹو کی سربراہی میں یونین بازی اوردوسرا اسلم اظہر کی سربراہی میں ٹی وی میں گروپ سسٹم نے پیدا کردیا۔پی ٹی وی میں پہلے ہی ایک خلاف معمول حرکت ہو رہی تھی اور وہ یہ کہ پروڈیوسر کی جاب میں ڈائریکٹر بھی گھسیڑ دیا ہُوا تھا۔ حالاںکہ مہذب دنیا کے ہر ٹی وی ادارے میں یہ دونوں شعبے مختلف نوع کے حامل ہوتے ہیں۔ مگر یہی نہیں پروڈیوسر پر کئی اور بوجھ بھی لاد ے گئے تھے۔ مثلاًکاسٹنگ ڈائریکٹر،ریکی ماسٹر یعنی لوکیشنز ڈھونڈنے اور ایرینج کرنے والالوکیشنز مینیجر،ڈائیلاگ ٹرینر، ریسرچر وغیرہ۔ یونین بازی نے یہ گُل کھلایا کہ اسلم اظہر کو مجبور کر دیاکہ ٹی وی کے جو فنکار ملازمین یعنی پروڈیوسرز؍ ڈائریکٹرز، ڈیزائنرز، کیمرہ مین، ساؤنڈ انجینئرز، ایڈیٹرز، کیمرہ کنٹرول انجینئرز، اسکرپٹس ایڈیٹرز، میک اپ آرٹسٹس ، وارڈ روب ڈیزائنرز،پروگرام پلانرز کو Menialمینیل اور روٹین کے کام کرنے والوں یعنی کلرکس، اکاؤنٹس کلرکس، ٹیلیفون آپریٹرز، سیکریٹریز وغیرہ کا ہم پلہ کر دیا ۔جو 1964 ہی سے کسی نہ کسی بڑے رُتبے پر تھے وہmore equal than others ہو کر بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر ہو گئے۔ اسلم اظہر کا جاری کردہ گروپ سسٹم کیا تھا؟ سب سے پہلے فرض کر لیا گیا۔۔۔۔ نہیں فرض نہیں کسی نازل کردہ ڈاکٹرائن کی طرح تمام غلامانِ ٹی وی پر تھوپ دیاگیا کہ جوایرا غیرا نتھو خیرا ٹی وی میں جیسے تیسے بھی بھرتی ہو گیا وہ ہر طرح منجھے ہوئے فنکار ملازمین کے ہی رُتبے کا مالک ہے۔اور چوں کہ اُن سب کی تنخواہ ایک ہی پے اسکیل کی ہے تو یہ سب برابر ہیں۔ یعنی All Animals are Equal ۔یوں تنخواہ کے لحاظ سے غلاموں کے گروپ بنا دیے گئے۔ مثلاً اگر تنخواہ ہماری مسزشروف ٹیلیفون آپریٹر کی بختیار ا حمد پروڈیوسر ااور اسلم خان اکائونٹس کلرک کے برابر ہے تو تینوں کو گروپ 5 میں رکھ دیا گیا ۔(یاد رہے بھُٹو کے آتے ہی میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں اورایک مخصوص علاقے کو ترجیحی بنیادوں پر سرکاری نوکریاں بانٹی گئیں) یوں بھُٹو کی سوشلزم کو ALL ANIMALS ARE EQUAL..... .. کا لولی پوپ تو مل گیا مگر تخلیق کار کو پی ٹی وی نے ذلیل کر کے رکھ دیا ۔آپ نے George Orwell کا نام تو سنا ہو گا اور اُس کے مشہور ناولیٹ ANIMAL FARM کا ذکر بھی سن رکھا ہوگا ۔ گو یہ ناول روسی انقلاب پر ایک طنز تھا مگر پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن کے معاملات بھی اُس وقت کی سوویت یونین سے خاصی مشابہت رکھتے رہے ہیں ۔ بل کہ آج بھی حال وہی ہے۔ اسلم اظہرصاحب نے یہیں پر بس نہ کی اُنہو ں نے ایک قدم آگے بڑھا دیا کہ تین اصحاب کو عام گروپ 5 کے غلاموں سے 2 رُتبے آگے دے کر یعنی گروپ7میںبھرتی کر لیا۔اُس وقت یعنی 1972 میں کراچی سنٹر پر پروگرام اور نیوز کے پروڈیوسرز کی کُل تعداد سولہ یا سترہ تھی۔ اُن تمام سادہ لوحوں نے نوکری میں اپنی حق تلفی ہوتے دیکھ کر یک مشت اجتماعی استعفیٰ لکھا اور اپنے اپنے نام کے آگے دستخط کردیے۔ ظاہر ہے اسلم اظہر صاحب کو اطلاع ہو گئی اور تمام پروڈیوسر جمع کیے گئے اور جنابِ اسلم اظہر ایم ڈی پی ٹی وی آ کر صدرِ مجلس ہو گئے۔ استعفوں کا لفافہ عبیداللہ علیم نے پیش کیا۔جس پر اسلم اظہر صاحب کے چہرے پر برہمی کے آثار واضح طور پر نظر آئے اور آنا بھی چاہئیے تھے کہ ایک آدمی کو ابھی چند مہینے پہلے ہی پاکستان کے واحد ٹیلیویژن کی سربراہی ملی ہو اور اُس کے ڈ یڑھ درجن کے قریب منجھے ہوئے ملازم ۔۔۔۔غلام۔۔۔۔مستعفی ہو رہے ہوں توآدمی برہم تو ہو گا۔ پھر انہوں نے اپنے عمومی سبھاؤ کے ساتھ سب پر طائرانہ نگاہ ڈالی اور قدرے توقف کے بعد گویا ہوئے، ’’ تم یہ لفافہ واپس لے لو ۔‘‘ پھر ایک پریگنینٹ پازpragnant pause کے بعداپنی آواز کو مزید گمبھیر بناتے ہُوئے کہا،’’ اگر میں نے یہ لفافہ کھول لیا تو میں اس خط کو منظور کر لوں گا۔‘‘ مجلس پر سنّاٹا توطاری تھا ہی، وہ اور گہرا ہو گیا۔ اس سنّاٹے کو چند سیکنڈ کے بعد ایک سینئیر پروڈیوسر کی ہچکیوں نے توڑا۔ ہچکیوں کے منبع کی طرف نگاہ گئی توہمارا ایک ساتھی زار و قطار رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا(حتمی الفاظ تو اب یاد نہیں تاہم مفہوم اُس گریہ کا یہ تھا )،’’ اسلم صاحب آپ ہمارے مائی باپ ہیں ، ہم بچوں کو آپ نے پالا پوسا ہے تو ہم پر سے دستِ شفقت نہ اُٹھائیے۔۔۔۔۔‘‘ ایسے لگا جیسے یہ استعفے والی حرکت اسلم اظہر نے کی ہے اور ہم اُن سے درخواست گزار ہیں کہ خُدا را ہمیں داغِ جُدائی نہ دیجیے اور استعفیٰ واپس لے لیجیے!۔۔۔۔۔ اور استعفیٰ واپس لے لیا گیا۔ وہ ایسے کہ ہمارے بہت ہی پیارے سینئر ساتھی عشرت انصاری صاحب نے ہاتھ بڑھایا، استعفوں والا لفافہ اُٹھایا اور اُسے وہیں میز پر ہی دل جمعی کے ساتھ غُصّے میں بل کھاتے ہوئے پھاڑ دیا۔ لیجیے اک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے لیکن یہ پتہ نہیں کہا ںکہاں گِرے۔ صرف یہ یاد ہے کہ سارے پروڈیوسر خجل تھے۔ کوئی اِدھر گرا کوئی اُدھر گرا اور محفل اُجڑ گئی۔ ساتھ ہی غلامی سے نجات پانے کی ایک موہوم سی امید بھی ٹکڑے ٹُکڑے ہو گئی۔لیکن یہ ساری مشق بنیادی طور پر ہی غَلَط تھی۔ باقیوں کا تو میں کہہ نہیںسکتا مگر میں انتہائی احمق تھا کہ نہ اپنے مقصد کا پتہ تھا اور نہ ہی حالات کی پیچیدگی کاادراک۔ حالات یہ تھے کہ اُس وقت صرف ایک ٹیلیویژن تھا جس پر ہماری ساری پروڈیوسری کھڑی تھی۔فلم والے ایک اور ہی دنیا میں بستے تھے۔ اُس عمومی طور پر اوور ڈواِنگ کی بلند بانگ چیختی چنگھاڑتی، گہرے اور بلند آہنگ سانسوں کی جعلی دنیا میں ہمیں سانس لینے کا یارا نہ تھا اور دوسری کوئی آپشن ہمارے پاس تھی نہیں۔ ہمارا مقدمہ ہی غَلَط تھا۔ عبید اللہ بیگ، قریش پور اور افتخار عارف ہم میں سے بہتوں سے زیادہ پڑھے لکھے اور لائق تھے۔ ہمارا مقدمہ یہ ہو نا چاہئیے تھا کہ ہم تخلیق کاروں کو غلامی سے نکالو اور اگر ہم کسی لائق ہوں توکانٹریکٹ پر ہماری خدمات حاصل کرو تاکہ ایک آزاد مقابلے کی فضا پیدا ہو اور ٹیلیویژن پھلے پھولے۔ مگر افسوس یہ نہ ہُوا!!!ٹیلیوژن تو پھلا پھولااور اسلم اظہر کی سربراہی میں بہت سے باکمال،لائق،پڑھے لکھے، اپنے پیشے میں ماہر، عالمی سطح پرمانے ہوئے، ڈرامے، موسیقی، دستاویزی فلموں میں عالمی سطح کے ماہر، طنز و مزاح میں نام کمانے والے ، فلم میں بھی درک رکھنے والے ہنر مند، غرضے کہ فن وادب کے ہر شعبے کے بہترین دماغ اسی پی ٹی وی نے پاکستان کو دیے جن کا مقابلہ آس پاس کوئی نہیں کر سکتا تھا۔مگر ۔۔۔۔۔۔ مگر اُن کو پی ٹی وی کی ریٹائرمنٹ پالیسی لے ڈوبی اور وہ جگمگاتی کہکشاں ہی ڈوب گئی۔ وجہ تھی غلامی، ریٹائرمنٹ پالیسی اور حسد۔ (جاری ہے)