بچہ مزدوری
پاکستان میں بچہ مزدوری عام ہے اور بچہ مزدوری کے لیے قوانین موجود ہیںمگرقوانین کی اہمیت کاغذوں میں نہیں ان کے نفاذ پر ہوتی ہے ہمار ے معاشرے میں موجود سب سے بڑی برائی یہی ہے کہ نصاب کی کتابوں میں ملک میں موجود ،مسائل بتائے ،سمجھائے جاتے ہیں حل بھی تجویز کیئے جاتے ہیں مگر سب کچھ کتابی ہوتا ہے نویں جماعت کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ نچلے طبقہ میں فیملی پلاننگ کی روایت نہیں اس لیے وہاں کنبے میں افراد کی تعداد آٹھ سے دس ہوتی ہے اور جب ایک یادو افراد کے کمانے سے گھر کا خرچہ پورا نہیں تو پھربچہ مزدوری جنم لیتی ہے اورگھر میں موجود بچے ہوٹلوں ،گھروں ،فیکٹریوں میں کام کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔آج کل یہ خبر یںعام ہیں کہ معصوم رخسار کو مار مار کر آدھ موا کردیاگیا ،راشدہ کو مالک نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالااور چھوٹو جو کار ورک شاپ پر کام کر رہا تھا اسے گاڑی وقت پر ٹھیک نہ کرنے پر بھوکااسٹور میں بند کردیا گیا ایسے بے شمار واقعات سے یہ محسوس ہوتا ہے گویامعاشرے سے انسانیت ناپید ہورہی ہوں کیونکہ جس معاشرے میں پھول ،فرشتے یعنی بچے محفوظ نہیں انھیں ظلم اور بربر یت کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ بھی صرف اس جرم کی پاداش میں کہ انھیں پیٹ پالنے کو خود کام کرنا پڑرہا ہے اور کام کرتے ہوئے وہ کبھی کبھا ر غلطی سے کوئی عمل ایسا کرجاتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ وہ بچے ہیں بڑے نہیں اور یہ ان کا ناقابل معافی جرم بن جاتا ہے گوکہ کہنے کو ہمارے معاشرے میں بچہ مزدوری کے حوالے سے قوانین موجود ہیں مگر بات پھر وہی آجاتی ہے کہ قوانین کے ہونے سے کیا ہوتا ہے اصل تو ان پر عمل درآمد ہوتا ہیں میری حکومت سے گزارش ہے کہ بچوں کو ان کے حقوق ملیں بچہ مزدوری کو ختم کیا جائے اور اگر ختم نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم قوانین پر تو عمل درآمد تو ہو تاکہ معصوم بچے سکون سے سانس لے سکیں اور زندگی سکون سے گزارسکیں۔ مبشرہ خالد۔کراچی