گھرگھر کی کہانی
چند روز قبل مجھے ایک میاں بیوی کے درمیان صلح کروانے کا موقع ملا جو میرے نہایت قریبی دوست ہیں۔ کئی دنوں سے ان کی آپس میں بول چال منقطع تھی۔ دونوں نے اپنی اپنی شکایات اور گلے شکوے سنائے۔ بیوی کا کہنا تھا کہ ان کے میاں بات بات پر ان کو غلیظ گالیاں دیتے ہیں۔ گھر والوں حتیٰ کہ لوگوں کے سامنے ان کو بے عزت کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طعنے دے کر تحقیرکرتے ہیں۔ معمولی باتوں پر حکم صادر کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے بھائی سے رشتہ ختم کرنا ہے، ماموں سے بالکل بات نہیں کرنی، خالہ کی بیٹی کی شادی پر نہیں جانا ، جائو گی تو طلاق دے دوں گا۔ اس ساری گفتگو میں میاں صاحب بڑی ڈھٹائی سے گردن اکڑائے مونچھوں کو مروڑتے اور فاتحانہ انداز میں میری طرف دیکھتے رہے۔ ان کی باڈی لینگویج گویا کہہ رہی ہو کہ آپ مجھے ہیرو تسلیم کر لو۔ میرے گلے میں ہار ڈالوسیس نوائواور وکٹوریہ کراس جیسا کوئی ایوارڈ عطا کرو۔ یوں کہہ لیں کہ اس وقت ان کی ڈھٹائی ، کمینگی، کم ظرفی، چھوٹا پن اور بزدلی کا اظہار اپنے عروج پر تھا۔ دونوں کی باتوں اور رویے سے لگ رہا تھاجیسے وہ ایک دوسرے کے لئے ایسی کھاری جھیل بن چکے ہوں جن کا ایک قطرہ بھی اب حلق سے نیچے نہیں اتر سکتا۔خیر صلح تو ہو گئی۔ پرانی تلخیوں کو خیر باد کہہ کر آئندہ ایسی غلطیوں ، کمیوں کوتاہیوں اور زیادتیوں کا اعادہ نہ کرنے کا عزم بھی کر لیا گیا۔ جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ گھر آکر ایک بات ذہن میں کھسر پھسر کرتی رہی کہ یہ رویہ تو ہماری اجتمائی سماجی زندگی میں بہت ہی عام ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے مرد تو اپنی مردانگی، وجاہت، رعب، دبدبہ اور برتری کا اظہار ہی اپنی بیوی کو ذلیل ، رسوا اور بے عزت کرتے ہیں۔ جس سے بیوی کی طرف سے ری ایکشن آتا ہے اور ہنستا بستا گھر جہنم بن جاتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میاں بیوی تو زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ زندگی کو احسن طریقے سے رواں دواں رکھنے کے لئے ان دونوں پہیوں کی یکساں اہمیت ہے۔ ان دونوں کا صحیح سلامت ، ہم آہنگ اور متوازن ہونا بہت ضروری ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور بے معنی ہیں۔ خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب دونوں میں ایک ٹریکٹر کا پہیہ بن کر دوسرے کو سکوٹر کا پہیہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف سفر رک جاتا ہے بلکہ بہت سی قباہتیں جنم لیتی ہیں۔ میاں بیوی تو ایک دوسرے کے پر ہوتے ہیں۔ جن سے دونوں خیالی اور عملی زندگی میں اڑتے پھرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں۔ لہذا شکر واجب ہے۔ وہ محروم رہ جاتا ہے جو اللہ تعالی کی عطائوں کا شکر نہیں کرتا۔ عطائوں پر شکر ادا نہ کرنے سے انسان بسا اوقات مغرور ہو جاتا ہے۔یہیں سے بد قسمتی کی ابتداء ہوتی ہے۔ ہم اسے بے حسی کہہ لیں یا نا قدری اور ناشکری انسان نے ہمیشہ اپنے خیر خواہ کو اس کی موجودگی میں نہیں بلکہ اس کے چلے جانے کے بعد ہی پہچانا ہے۔ پرائی عورتوں کو خوبصورت تعریفی اشعار سنانااور اپنی بیویوں پر لطیفے بنا کر اس کی تحقیر کرنا بھی نا شکری ہی ہے۔ پرائی عورت وقتی طور پر دل بہلا سکتی ہے مگر گھر نہیں سنبھال سکتی۔ وہ حیاء ، وفا، اپنائیت اور محبت کی دولت سے مالا مال نہیں ہوتی نہ اس کی روح شاداب ہوتی ہے۔ ہم مائوں کی عظمت پر متفق ہیں مگر بیوی کی اہمیت اور عظمت پر بات کرنے سے ہماری مردانگی اور غیرت متاثر ہوتی ہے۔ حالانکہ بیوی کسی کی ماں بھی تو ہوتی ہے یا ہو گی۔ بیوی اپنے گھر کی سلطنت کی سربراہ ہوتی ہے، جسے وہ ہمہ وقت محنت ، لگن اور شوق سے ایسی جنت نظیر بنانا چاہتی ہے جو ہر قسم کی ٹینشن ، پریشانی اور تفکرات سے پاک ہو۔ اس عمل کے لئے اسے مرد کا مضبوط کندھا درکار ہوتا ہے۔ اس میں اس کی خوشیاں ، احساس تحفظ اور عظمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹینشن ، پریشانیاں اور مایوسیاں تو ہر موڑ پر محو رقص نظر آتی ہیں ۔ ایسا اتفاق بھی ہوتا ہے کہ کبھی آپ زندگی کے کسی ایسے چوراہے پر موجود ہوں اور ٹینشن اور مایوسیوں کا رقص چہار سو جاری ہوتو آپ پریشانی سے سر جھٹک کر کہتے ہیں دفعہ کرو گھر چلتے ہیں۔ کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ گھر ہی ایک ایسی جائے پناہ ہے جہاں بس سکھ، امن اور چین ہی ہے۔اگر اس سلطنت میں بھی بد قسمتی سے ایسا ماحول اور رسم ہو کہ یہاں بھی روٹی ہاکی پر رکھ کر ملنے کی نوبت آجائے تو پھر جائے پناہ کے لئے اورکوئی متبادل نہیں ملتا۔ اس وقت احساس ہوتا ہے کہ کم از کم اس سلطنت کے ماحول کو ہر قیمت پر پر سکون اور پر امن ہونا چاہیئے۔ جیساکہ بیوی کی خواہش ہوتی ہے۔ مغرب میں عورت اپنا وقار کھو چکی ہے۔ صرف معاشی آزادی کے لئے وہ فیکٹریوں ، دکانوں اور دفتروں میں کام کرتی ہے۔ مگر اس کا اپنا گھر نہیں بس مکان ہی ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کا مرد بھی بے گھر ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ جب ہم بیوی کو عزت دے رہے ہوتے ہیں تواس پر احسان نہیں کر رہے ہوتے ۔ بلکہ اپنی جائے پناہ کو مضبوط کر کے اس میں سکون، عزت اور امن کو بڑھاوا دے رہے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی بیوی کو تنگ کرنے اور دکھ دینے کی کوئی منطق نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی دنیا ہی بڑی محدود ہوتی ہے جو اپنے شوہر سے شروع ہو کر بچوں پر ختم ہو جاتی ہے اور اس دنیا میں اس نے صرف اپنے شوہر پر اعتماد کر کے قدم رکھے ہوتے ہیں۔ لہذا گھر ایک ایسا مورچہ ہے جس کو اتنا مضبوط ہونا چاہیئے کہ نفرت،کدورت، انا اور تکبر کی مسموم ہوائیں بھی اسے متاثر نہ کر سکیں۔ (جاری ہے)