قیام پاکستان سے آج تک عوام ہر وقت مشکل میں رہے ہیں، انہیں کبھی زندگی کے اصل مقصد کی طرف آنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ عام آدمی کو ہر دور میں دو وقت کی روٹی میں الجھائے رکھا گیا ہے۔ ان مشکلات میں بہت سارا حصہ ان اسلام دشمنوں کا ہے جنہوں نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کے ازلی دشمن تو کفار ہی ہیں یا پھر وہ تمام مذاہب جن کے بارے میں قرآن میں واضح موجود ہے ان سب کے لیے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر قائم یہ ریاست کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان سے ابتک اس ملک کو حقیقی قیادت میسر نہیں آ سکی جو بھی حکمران آئے یا لائے گئے یا پھر مسلط ہو گئے ان میں سے کسی نے بھی انسانوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا نہ اس اہم ترین شعبے پر کوئی توجہ دی نہ ہی ایسے رجحانات کو فروغ دیا جس کے باعث ملک میں انسانوں کا معیار بلند ہو سکے بلکہ منظم منصوبہ بندی کے تحت پاکستان میں بسنے والے انسانوں کے معیار کو تباہ کیا گیا۔ آج ہر دوسرا شخص ماضی کی رواداری، احساس، صلہ رحمی، ہمدردی، بھائی چارہ، اخلاص، دیانت اور امانت کو کیوں یاد کرتا ہے۔ آج کیوں ہر دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ جو وقت گذر گیا وہ اچھا تھا، کیوں یہ کہتا ہے کہ پرانے وقتوں کے لوگ اچھے تھے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ آج کے لوگوں کی جسمانی ساخت میں کوئی فرق پیدا ہو گیا بلکہ وجہ یہ ہے کہ انسانوں کے روئیے بدل گئے ہیں سچ کی جگہ جھوٹ لے چکا ہے، امانت اور دیانت داری کی جگہ بد دیانتی، بے ایمانی اور خیانت پھیل چکی ہے، محبت کی نفرت نے لے لی ہے، حوصلہ افزائی کی جگہ حوصلہ شکنی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ رحم کی جگہ بے رحمی عام ہو چکی ہے۔ اخلاص کو بناوٹ اور مطلب پرستی اور خود غرضی کھا چکی ہے۔ لالچ، حسد اور حرص صلہ رحمی کو کھا گئی ہے۔ انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ناانصافی عام ہے۔ دھوکہ اعتماد کو نگل چکا ہے، صاف گوئی مصلحتوں میں کہیں نیچے دبی پڑی ہے۔ سچ کو جھوٹ پر فوقیت دینے کا رواج ہے۔ قانون خود قابل رحم حالت میں ہے۔ بے حیائی نے حیا کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ سب خرابیاں اور برائیاں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی ہیں ان خرابیوں کی وجہ سے ہی معاشرے میں بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ دل اور زبان کی تخلیق سے ہمیں فطری طور پر ان کے نرم ہونے کا پیغام ملتا ہے لیکن ہم نے ان دونوں کو ہڈیوں، لوہے اور پتھروں سے بھی سخت بنا دیا ہے۔ یہ دونوں صاف شفاف ہونے کا پیغام ملتا ہے لیکن ان دونوں کو ہم کوئلے سے بحیثت زیادہ سیاہ کر کے بیٹھے ہیں اور پھر یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ کوئی یکا یک ہمیں بدل دے ہمارے مسائل ختم ہو جائیں، کیا ایسا ممکن ہے؟؟؟
یقیناً نہیں یہ تمام خرابیاں، برائیاں ہمیں حکمرانوں سے ملیں، طاقتور طبقے سے ملیں، یہ تمام ناانصافیاں وسائل پر قابض افراد نے پھیلائیں تاکہ نظام مضبوط نہ ہو سکے۔ وسائل عام آدمی تک نہ پہنچ سکیں اور ملک میں حقیقی ترقی اور اسلام کی درسگاہ کو خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ یہ سارے کام حکمران اور طاقتور طبقے نے کیے ہیں۔ آج ملک میں ستانوے فیصد افراد کو دو وقت کی روٹی سے زیادہ کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ ایک دن اجرت ملتی ہے تو اگلے دن کا خوف ہے، ایک تنخواہ ملتی ہے تو اگلی تنخواہ خطرے میں نظر آتی ہے۔ بہن بھائیوں کی ضروریات، والدین کے علاج، بیوی بچوں کی ضروریات، بچوں کی تعلیم اور ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے لیے اچھے بھلے عالی دماغوں کو معمولی کاموں پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ انسانی صلاحیتوں کی جتنی توہین وطن عزیز میں ہوتی ہے شاید ہی کہیں ہوتی ہو۔ یہ سارا نظام کسی ڈرائیور، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے، پھل یا سبزی فروش یا کسان نے تو نہیں بنایا یہی نظام انہوں نے بنایا ہے جنہیں بیرونی آقاؤں اور اسلام دشمنوں نے سپورٹ کر کے اس ملک پر حکمرانی کا حق دیا۔ کسی ایک حکمران نے بھی مسائل کو سمجھنے اور وسائل کو حقیقی باصلاحیت افراد ہر خرچ کرنے، تعلیم و تحقیق اور معیار انسانی کو بلند کرنے پر خرچ نہیں کیے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام کے لیے سب سے زیادہ ضروری کیا ہے۔ جس ملک میں سیاست روٹی کے نام پر ہو اقتدار کپڑے کا لالچ دے کر لیا جائے وہاں کیا انسانوں کی تعمیر ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف احتساب سرعام اور اقتدار میں عوام کے منشور لے کر سیاست کرتی آئی ہے۔ ایسے ملک میں جہاں کوئی بلدیاتی نظام نہیں ہے وہاں سیاست دانوں کو براہ راست وفاقی و صوبائی وزارتوں میں بٹھا کر تباہی کا عملی مظاہرہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ن لیگ کا منشور بھی کہیں انسانوں کے معیار کو بلند کرنے کی بات نہیں کرتا۔ سب حکمران آٹا روٹی کے نام ہر سیاست کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کا حقیقی مسئلہ ہی کچھ اور ہے حکمران قوم کو کسی اور راستے پر چلاتے رہے ہیں۔
ان تمام خرابیوں، برائیوں، منظم سازشوں اور کوششوں کے باوجود بھی ملک میں ترقی ہوئی ہے۔ لوگوں کا طرز زندگی، معیار زندگی بلند ہوا ہے۔ ساٹھ، ستر کی دہائی میں بھی لوگ گھر جیسی نعمت سے محروم تھے آج بلند و بالا عمارتیں، بڑے بڑے گھر، لگژری گاڑیاں، باغات، ہوٹلز، ریسٹورانٹس، کافی شاپس، قہوہ خانے، ہیلتھ کلبس، مہنگے پرائیویٹ ہسپتال، مہنگے مہنگے پرائیویٹ سکولز ہر شہر میں ہیں۔ گوکہ غربت اور مسائل بھی کم نہیں ہیں لیکن ترقی بھی ہوئی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ یہ ترقی سازشوں کے باوجود ہوئی ہے۔ سب سے اہم اور خاص بات یہ کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ ایٹم بم کی موجودگی میں ملکی دفاع ناقابلِ تسخیر ہو چکا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے لیے اس سے بڑی تکلیف کوئی نہیں ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت رکھتا ہے۔ ملک میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر جان دینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے پاکستانیوں نے ہر وقت بے پناہ جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بے پناہ خرابیوں، جھوٹ، نفرت، منظم سازشوں، ناانصافی، قتل و غارتگری، دہشت گردی اور دشمنوں کے بھرپور حملوں کے باوجود ملک قائم ہے اور فتنوں کے دور میں تمام اچھائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک سے عاپم اسلام کو یقیناً کوئی فائدہ ضرور پہنچے گا۔ اس ملک سے عالم اسلام کے لیے خیر کا پیغام ضرور ملے گا، یہاں سے اسلام کا جھنڈا ضرور بلند ہو گا۔ ان شاء اللہ مشرقی پاکستان دوبارہ انیس سو سینتالیس والی حیثیت میں واپس آئے گا۔ اللہ کے نام پر بننے والا ملک اللہ کے دین اور عالم اسلام کے لیے اہم کردار ضرور ادا کرے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے وزراء کو غیر ضروری بیانات سے روک دیا ہے۔ خبر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزراء کو مذہبی اور حساس معاملات پر بیان بازی سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی وزیر فضول گفتگو نہ کرے۔ اس سے پہلے بھی ایک روز وزیراعظم نے وزراء کو منظق اور دلیل کے ساتھ گفتگو کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے باوجود ان کے وزراء کی طرف سے فضول گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ وزراء کے پاس کوئی منطق یا دلیل نہیں ہے جو وہ ہر وقت غیر ضروری بحث میں الجھے رہتے ہیں کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے کیونکہ دلیل تو کارکردگی سے ہوتی ہے۔ وزیراعظم کو ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے مہنگائی کے حوالے سے یا مہنگائی پر قابو پانے کے لیے وہ درجنوں میٹنگز اور ہدایات جاری کر چکے ہیں لیکن ان کے وزراء کچھ بھی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر وزرائ کام کرتے تو عوام کی خدمت کرتے تو آج وزیراعظم کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ وزراء غیر ضروری گفتگو سے گریز کریں، منطق اور دلیل کے ساتھ بات چیت کی عادت ڈالیں لیکن کام نہ کرنے والے وزراء نے عوام کے ساتھ ساتھ اپنے قائد کے لیے بھی لاتعداد مسائل پیدا کیے ہیں۔ مہنگائی کسی کے قابو میں نہیں ہیں اور وزراء کے پاس عوام کی خدمت کے لیے وقت نہیں ہے بہتر ہو کہ وزیراعظم ٹی وی چینلز پر بھی چند مخصوص افراد کو شرکت کی اجازت دیں یا پھر وزراء کو بھی ہفتے کے مخصوص دنوں میں ٹی وی پروگرامز میں شرکت کی اجازت دیں باقی سارا وقت اپنی وزارتوں اور عوامی مسائل حل کرنے میں صرف کریں۔ وزرائ اسمبلیوں میں اس لیے نہیں گئے کہ ہر وقت ٹی وی پروگرامز میں بیٹھے رہیں یا تقریریں کرتے رہیں انہیں اسمبلیوں میں عوام کی خدمت کے لیے بھیجا گیا ہے اگر وہ بنیادی ذمہ داری ہی نہیں نبھا سکتے تو ٹی وی پروگرامز میں شرکت کس حیثیت میں کر رہے ہیں۔ کسی ایک وزارت کی کارکردگی بھی تسلی ںخش نہیں ہے لیکن بیانات میں کوئی کسی سے کم نہیں ہے۔ وزیراعظم اس بگڑے ہوئے ٹولے کو سمجھا ہی سکتے ہیں۔ اراکین اسمبلی، وزیران کرام اور مشیران خود بھی کچھ خیال کریں۔ انہیں اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا ہے کہ یہ ماضی کی حکومتوں سے بہتر ہیں۔ خود کو بہتر ثابت کرنے کے لیے کام کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی سے عوام خوار ہو رہے ہیں اور پی ٹی آئی اکابرین کہیں نظر نہیں آ رہے۔ لوگوں نے ووٹ عمران خان کو دیا ہے اور انہی سے جواب بھی مانگتے اور انہی سے توقع بھی رکھتے ہیں۔ وزراء کو سمجھنا چاہیے کہ عوام کا عمران خان پر اعتماد ہی انہیں اسمبلیوں میں لے کر آیا ہے لیکن دکھوں مارے عوام کب تک حکومت کی انڈر سکسٹین اور انڈر نائینٹین کے غلط فیصلوں کو برداشت کرتے رہیں گے۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے دو ملزمان کو سزائے موت جبکہ کچھ کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے گئے ہیں۔ جنہیں سزائے موت ہوئی ہے انہوں نے آگ لگانے کا اعتراف کیا تھا۔ اتنی بڑی فیکٹری کو کمزور افراد آگ نہیں لگا سکتے۔ طاقتور افراد کی پشت پناہی کے بغیر ایسی کارروائیاں ممکن نہیں ہوتیں۔ یقیناً اصل ملزموں کو تفتیشی عمل میں فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ تفتیشی عمل میں گواہوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جن دنوں یہ واقعہ ہوا تھا ان دنوں کراچی میں غدار الطاف حسین کی جماعت کتنی طاقت میں تھی یہ سب جانتے ہیں۔ ایم کیو ایم والے شہر میں ایسی کارروائیاں کیوں کرتے تھے یہ بھی سب جانتے ہیں۔ دو سو چونسٹھ افراد زندہ جل گئے اور اس سانحے کے ذمہ دار صرف مزدور ہوں ایسا ممکن نہیں ہے۔ بہرحال متحدہ قومی موومنٹ کی دہشت گردی کی کارروائیوں نے ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس واقعے سے کسی بھی طور متحدہ کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اللہ کی عدالت سے تو کوئی نہیں بچ سکتا جن افراد نے اس قتل عام میں کردار ادا کیا ہے قدرت ان سے انتقام لے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024