ورلڈ بینک سے قرض ثالثی اور بھارتی این او سی کی ضرورت نہیں!
مکرمی! ہماری زراعت اور زرعی پالیسی قریب المرگ ہے۔ خوف ہے کہ ڈیم قومی بقا کی آخری امیددم نہ توڑ جائے لہٰذا واٹر اتھارٹی کی تشکیل یا تشکیل نو کی ضرورت ہنگامی بنیادوں پر ناگزیر ہے چنانچہ ملکی آبی ماہرین کی فوری میٹنگ بلائی جائے اور ثالثی عدالت میں جانے کیلئے سنجیدہ غور فکر کے ساتھ حتمی مطالبات، سفارشات اور نقطہ نظر کی لسٹ تیار کی جائے جسے بھرپور تیاری اور زوردار طریقے سے پیش کیا جائے، دوئم، کنسٹرکشن انڈسٹری کی طرح انویسٹر کیلئے ایمنسٹی سکیم کا اجراء کر کے واپڈا بانڈ جاری کئے جائیں تو ڈیم کیلئے مطلوبہ مالیت کے فنڈز باآسانی جمع ہو سکتے ہیں اور آبی ذرائع کے چیلنجز بھی بہت زیادہ ہیں خوفناک قحط کا سدباب بھی ضروری ہے۔ لہٰذا! چونکہ عدالت عظمیٰ نے کالا ڈیم باغ کو رد نہیں کیا بلکہ اپنے فیصلے میں اتفاق رائے سے شروع کرنیکا حکم تحریر کیا ہے اور باغ ڈیم کا بنیادی کام بھی مکمل ہے اور دیگر مطلوبہ سامان بھی سائٹ پر موجود ہے جس کیلئے صرف چند ارب روپے اور صرف 2 سال کا عرصہ درکار ہے جو سسکتی قومی بقا کیلئے رمق ضرور پیدا کریگا۔ جس کیلئے دیر کی گنجائش نہیں اور بھارت سے این او سی اوو ورلڈ بینک سے قرض کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔(محمد اسحاق غازی، لاہور)