سعودی عرب یوم الوطنی
سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی معیشت اور خطے کا سب سے امیر عرب ملک ہے۔خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی ولولہ انگیز قیادت نے بڑے پیمانے پر عوامی کاموں کی پالیسی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری اور مالیاتی نظام کی مستقل مزاجی نے ملک کو ایک مضبوط علاقائی معیشت بنا دیا ہے۔ تاہم، سعودی عرب کی معیشت تقریبا مکمل طور پر تیل پر منحصر ہے۔ایک سال قبل ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) متعارف کرانے کے بعد حکومت نے توانائی اور پانی کی قیمتوں میں اصلاحات لانے کے منصوبوں پر عمل درآمد کا آغازکیا ۔ اس نے عوامی خریداری میں شفافیت اور سرکاری اخراجات میں کمی اورکارکردگی بڑھانے کے اقدامات بھی کیے۔مشرق وسطیٰ میںوہاں کا معیار زندگی او رجی ڈی پی ایک اعلی مقام پر ہے ۔ زراعت جی ڈی پی کا 2.2 فیصد ہے اور اس میں فعال آبادی کا 4.8 فیصد کام کرتا ہے۔ سعودی عرب میں الحمدللہ دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اور وہ دنیا کا سب سے بڑا پیداواری برآمد کنندہ بھی ہے۔ سعودی حکام کی اقتصادی ترقی کی کوششوں کے ساتھ نان آئل صنعتی شعبے کا حصہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔سیاحت سے بہت زیادہ آمدنی ہوتی ہے (ہر سال لگ بھگ 40 لاکھ سیاح)، جس میں حج و عمرہ کے زائرین بڑی تعدادمیں شامل ہے یہاں آتے ہیں ملک نے سیاحت کی آمدنی میں اضافے کی کوشش میں تقریبا 50 ممالک کے شہریوں کے لئے نیا سیاحتی ویزا متعارف کرایا۔
مرحوم فرماں روا شاہ عبدالعزیز آل سعود نے 21 جمادی الاولی 1351 ہجری مطابق 23 ستمبر 1932 بروز جمعرات مملکت سعودی عرب کے قیام کے اعلان کا دن ملک کا قومی دن قرار دیا تھا۔سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے مملکت سعودی عرب کے9 8 ویںیومِ تاسیس کے موقع پر اپنے پیغام میں باور کرایا ہے کہ’’سعودی عرب علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا فعال اور مؤثر کردار بخوبی ادا کر رہا ہے۔ مملکت عالمی امن اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے پر کاربند ہے اور تمام انسانیت کی بھلائی کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے‘‘۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ دفاع، معیشت اور توانائی سمیت متعدد شعبوں میں دونوں ملک ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی اور مضبوط تعلقات کی بنیاد 1951 میں ہونے والا معاہدہ بنا۔ سعودی عرب نے 1965 اور1971 کی جنگوں کے علاوہ سابق سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت کے وقت بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے ایک سال تک پاکستان کو 50 ہزار بیرل یومیہ تیل ادھار پر فراہم کیا۔ 2005 کے تباہ کن زلزلے،2010 اور 2011 کے سیلاب کے وقت بھی پاکستان کی بھرپورمالی مدد کی۔ براہ راست مالی امداد کے علاوہ سعودی عرب نے پاکستان میں انفراسٹرکچر، صحت اور تعلیم سمیت فلاحی شعبوں میں کئی منصوبے مکمل کئے۔اس وقت 26 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کمانے کے لئے موجود ہیں۔ انہوں نے تازہ اعداد و شمار کے مطابق 821.6ملین ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھجوایا جو کہ دنیا بھرسے آنیوالے ملکوں میں پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے بھیجے جانے والے زرمبادلہ میں سب سے زیادہ ہے۔ موجودہ دور حکومت میں سعودی حکومت نے پاکستان سٹیٹ بینک میں 3 ارب ڈالر جمع کرائے، تین سال تک ادھار تیل فراہم کرنے کا معاہدہ کیا جس کی مدت میں توسیع بھی ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں 20ارب ڈالر کے معاہدے ہونے کے بعد دونوں برادر اسلامی ممالک ایک نئے تاریخی اقتصادی شراکت داری کے دور میں داخل ہوئے ہیں ……(جاری)