اے پی سی کے سیاسی اثرات
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کوششیں رنگ لائیں اور آخر کار اے پی سی کا انعقاد ممکن ہوگیا۔ جس میں جماعت اسلامی کے سوا پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں نے شرکت کی۔طویل اجلاس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ایک اعلامیے پر اتفاق کرلیا جسے مولانا فضل الرحمن نے میڈیا کے سامنے پڑھ کر سنایا۔اعلامیے کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے ایک متحدہ الائنس بنایا ہے جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا ہے۔اعلامیہ میں وزیراعظم پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف عوامی ریلیوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔عوام کو فعال اور متحرک کرنے کے بعد لانگ مارچ کیا جائے گا جس کے نتیجے میں موجودہ حکومت کاخاتمہ ہوگا۔ پاکستان میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کا آپشن بھی کھلا رکھا ہے۔اے پی سی کے اعلامیے میں 26 نکات شامل ہیں جن میں بڑے مطالبات یہ ہیں کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا خاتمہ کیا جائے انتخابی اصلاحات کے بعد صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں جن میں خفیہ ایجنسیوں کا کسی قسم کا کوئی کردار نہ ہو۔صحافیوں کے خلاف تمام مقدمات واپس لئے جائیں اور سیاسی قائدین کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔سی پیک کے منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے۔نئی قانون سازی کرنے کے بعد یکساں اور شفاف احتساب کیا جائے۔اے پی سی میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے سربراہوں یا سینئر لیڈروں نے خطاب کیا جس میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر لیڈر شامل تھے۔جس خطاب کا پورے پاکستان میں چرچا ہوا وہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما میاں نواز شریف کا تھا جو انہوں نے لندن میں بیٹھ کرکیا۔نواز شریف کو یقین اور اعتماد یا زعم ہے کہ وہ آج بھی پاکستان کے سب سے بڑے پاپولر لیڈر ہیں اور پاکستان کے عوام ان کے سیاسی بیانیے سے اتفاق کرتے ہیں۔پاکستان میں عام تاثر یہ تھا کہ میاں نواز شریف بیمار ہیں اور زیر علاج ہیں پاکستان کی عدالتوں نے انہیں بیماری کی وجہ سے ریلیف دیا تھا اور ان کی سزا کو معطل کر کے انہیں علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت دی تھی ان کی اپیل آج بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہے لہٰذا ان کا خطاب محتاط اور معتدل ہوگا۔میاں نواز شریف نے دو سال کی خاموشی کے بعد جارحانہ خطاب کرکے سیاسی دھماکہ کر دیا۔میاں نواز شریف نے پاکستان کے آئین پیمرا قوانین اور عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان کے ریاستی اداروں پر کھلم کھلا حملہ کردیا۔انہوں نے اس بات کی پرواہ بھی نہ کی کہ پاکستان آج حساس اور نازک دور سے گزر رہا ہے اور اسے اپنی سلامتی کے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔پاکستان کے عوام کو بھٹو شہید یاد آئے جنہوں نے ریاست اور اداروں پر حملے کرنے کی بجائے ریاست پر اپنی جان قربان کر دی تھی۔میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک بار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست بن چکی ہے مگر آج حالات اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ریاست کے اوپر ریاست بن چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جدوجہد عمران خان کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان کے خلاف ہے جو ایک نااہل شخص کو مسلط کرنے کے ذمہ دار ہیں۔میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں خبردار کیا کہ اگر ووٹ کو عزت نہ دی گئی عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا گیا اور متوازی حکومت کے امکانات ختم نہ کیے گئے تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات سے پہلے ہی یہ فیصلہ کرلیا جاتا ہے کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا میاں صاحب شاید بھول گئے کہ وہ خود بھی موجود سسٹم کے تحت تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔ میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں سلامتی کے ادارے اور عدلیہ کے علاوہ موجودہ حکومت کی خارجہ اور معاشی پالیسیوں کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔میاں نواز شریف کے پرجوش خطاب کے بعد مسلم لیگ (ن) کے مایوس اور جذباتی کارکنوں میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے اراکین پارلیمنٹ کے لیے میاں نواز شریف کا خطاب غیر متوقع اور حیران کن تھا۔میاں شہباز شریف کی مفاہمت پر مبنی کوششوں کو سیاسی دھچکہ لگا ہے۔ سینئر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کے خطاب سے عمران خان اور بلاول بھٹو کو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔عوام حیران ہیں کہ حکومت نے سزا یافتہ شخص کو میڈیا پر خطاب کرنے کا موقع کیوں دیا۔کیا یہ وزیراعظم کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی ہے یا ان کو پہلے ہی یہ علم ہو گیا تھا کہ میاں نواز شریف اپنے خطاب میں ریاستی اداروں پر حملہ کریں گے اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک بار پھر عوام میں ایکسپوز ہو جائیں اور پاکستان کے ریاستی ادارے ان کے بارے میں جو نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ بھی ختم ہو جائے۔پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے پارلیمانی لیڈروں کو قومی سلامتی کے بارے میں ایک ہفتہ پہلے بریفنگ دی تھی جس میں واضح کر دیا گیا تھا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہے۔نیب الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات کے بارے میں فیصلے کرنا سول حکومت کی ذمہ داری ہے فوج کا سیاسی عمل سے کوئی تعلق نہیں فوج کو سیاسی امور سے دور ہی رکھا جائے۔پاک فوج ضرورت پڑنے پر سول حکومت کی اعانت کرتی رہے گی۔اس بریفنگ میں میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی موجود تھے۔نواز شریف کے خطاب کے سیاسی اثرات کو کم کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے چار وزراء شاہ محمود قریشی اسد عمر شبلی فراز اور فواد چوہدری نے مشترکہ پریس بریفنگ کی۔اسد عمر نے میڈیا کو ہندوستان میں شائع ہونے والے اخبارات دکھاتے ہوئے کہا میاں نواز شریف نے اپنے اینٹی پاکستان ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی اخبارات میں سرخیاں لگائی گئی ہیں کہ میاں نواز شریف نے پاک فوج پر حملہ کر دیا ہے۔بھارتی عوام شادیانے بجا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور پاک فوج اشتراک کے ساتھ ریاست کے قومی مسائل حل کر رہے ہیں اور پاکستان کو اس سنگین بحران سے باہر نکال رہے ہیں جو ہمیں ورثے میں ملا تھا جبکہ تمام اختیارات وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ میں ہیں۔سول حکومت اور پاک فوج نے عوام کے تعاون سے کورونا جیسی موذی وبا ٹڈی دل کے حملے اور کراچی میں طوفانی بارشوں کا مقابلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج جب کہ پاک فوج کے نوجوان قومی سلامتی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں ان حالات میں پاک فوج پر تنقید کرنا افسوسناک ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی ہے کہ جوں جوں احتساب کا عمل آگے بڑھے گا اپوزیشن کے لیڈر اکٹھے ہو جائیں گے تاکہ لوٹی ہوئی قومی دولت کو بچا سکیں۔انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف نیب کے اس ادارے پر تنقید کر رہے ہیں جس کا چیئرمین انہوں نے خود نامزد کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جب عدالتیں میاں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہیں تو وہ عدالتوں کی تعریف کرتے ہیں اور جب کوئی فیصلہ ان کے خلاف آجائے تو وہ عدلیہ پر تنقید سے بھی باز نہیں آتے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میاں نواز شریف کے دور میں پاکستان تنہائی کا شکار ہو چکا تھا اور کشمیر کا مسئلہ سرد خانے میں پڑا ہوا تھا موجودہ حکومت نے خارجہ امور میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
٭…٭…٭