محسن پاکستان سعودی عرب کا قومی دن
سعودی عرب کا قومی دن ہر سال 23ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1932ء میں پیش آنے والے ان واقعات کی یاد کو تازہ کرتا ہے جب مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعودنے ایک بکھرے ہوئے ملک کو متحد کیا اور اسلامی اصولوں پر مبنی ایک متحدہ مملکت کے قیام کا اعلان کیا۔ 15 جنوری 1902میں شاہ عبدالعزیز نے دارالحکومت ریاض کو واگزار کروایا اور اپنے ورثے کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کی بدولت علاقے میں آل سعود کی حکمرانی واپس آئی جہاں وہ دو ایسی مملکتوں پر حکمرانی کر چکے تھے جو جزیرہ نما عرب اور اس کے باہر وسیع علاقے پر محیط تھیں۔
سعودی عرب ایسے حالات میں یوم الوطنی منا رہا ہے کہ جب بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پورا خطہ عرب امن وسلامتی اور استحکام کے براہ راست سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔
مغربی دنیا سعودی عرب کو ایک عرصے تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ساتھ نتھی کرنی کی کوشش کرتی رہی۔ بعض شدت پسند مختلف ممالک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات میں جب ملوث پائے جاتے تو ان میں بعض سعودی باشندے بھی نکلتے جس کی وجہ سے سعودی عرب کو عالمی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا۔
حرمین شریفین (مکہ اور مدینہ) کی مقدس عبادت گاہوں کے خلاف سازشیں صدیوں سے چلی آرہی ہیں۔ ابرہہ نامی ایک عیسائی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً دو ماہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لیئے حملہ آور ہوا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسکے مقابلے کے لیئے ابابلیوں (پرندوں) کی فوج بھیج دی جنہوں نے ابرہہ اور اسکے لشکر پر سنگ باری کرکے اسے رہتی دنیا کے لیئے نشان عبرت بنا دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک عالی شان گرجا گھر بنا رکھا تھا اور چاہتا تھا کہ عرب کے لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اسکے گرجا گھر کو اپنی عبادت کا مرکز بنائیں۔ جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو اس نے نعوذ باللہ خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کی ٹھان لی اور ہاتھیوں کی فوج لے کر آیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ہول در ہول بھیج دیئے جنہوں نے ایسی کنکریاں برسائیں کہ ابرہہ اپنے لشکر سمیت نیست و نابود ہو گیا۔یہاں تک کہ ابرہہ سمیت اس کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچ سکا اور ہاتھیوں سمیت اِن کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو گرانے کا ناپاک ارادہ صرف مذہبی جنون میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کی پشت پر کھڑی اس وقت کی عیسائی دنیا کو بحر احمر کی بحری گزرگاہ پر مکمل تسلط درکار تھا کیوں کہ اس زمانے میں جس قوت کے ہاتھ میں بحری گزرگاہیں ہوتی تھیں وہی عالمی اقتصادیات کی حکمرانی کرتی تھی۔ اسلام سے قبل چوں کہ خانہ کعبہ عربوں کا ثقافتی اور مذہبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اقتصادی مرکز بھی تھا اس لیئے منہدم کرنے کے لیئے بڑے جواز کے طور پر ابرہہ نے پہلے یمن میں قائم گرجا گھر کو خود ہی تباہ کیا اور پھر اسکا الزام عربوں پر لگا کر اسلام سے پہلے بیت اللہ کو مٹانے کا ناپاک ارادہ ظاہر کیا لیکن وہ بیت اللہ کو تباہ کر سکا اور نہ ہی اسلام کو مٹا سکا۔ بعض طاقتیں دنیا کے پرامن مذہب اسلام اور مسلمانوں کی عبادت گاہ خانہ کعبہ کو مٹانے کے لیئے آج ایک بار پھر ابرہہ کی تاریخ دھرانے کے لیئے سرگرداں ہیں۔یمن کے لوگ سعودی عرب کے ساتھ تاریخی، ثقافتی اور مذہبی نہیں بلکہ خاندانی سطح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس ناطے یمنی عوام کی مدد کرنا ایک فرض ہے تاکہ یمن کو اس کے اپنے قدموں پر کھڑا کیا جا سکے اور انہیں ایک خوشحال اور پرامن زندگی کی طرف لوٹایا جا سکے۔ اسی مقصد کی خاطر ''فیصلہ کن طوفان'' کے نام سے آپریشن شروع کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ بیت اللہ کے تحفظ کی جنگ ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے خود ہی یقین دہانی کراتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ کشمیر پر سعودی عرب کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی یا سعودی عرب نے پاکستان کو دیا جانے والا قرضہ واپس کرنے کا کہتے ہوئے تیل سپلائی بند کر دی ہے۔ ’یہ سب باتیں قیاس آرائیاں ہیں۔ ’پاکستان اور سعودی عرب کے قلبی تعلقات ہیں جن کا مشترکہ ہدف امن کا فروغ ہے۔ ’پاکستان، سعودی عرب کی سالمیت اور علاقائی استحکام کو خطرات سے دوچار کرنے والے ایسے اقدامات پر مملکت کو اپنی مکمل حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔‘
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دیرینہ دفاعی تعلقات 1982 کو طے پانے والے باہمی سکیورٹی تعاون معاہدے کی روشنی میں استوار ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان، مملکت کو فوجی تربیت اور دفاعی پیداواری صلاحیت کے ضمن میں معاونت فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی فوجی دستے، سعودی عرب میں تربیتی اور مشاورتی امور کی انجام دہی کے لیے مملکت میں تعینات ہیں۔ پاکستان فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف اسلامی ملکوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاض میں تشکیل دیے گئے 41 رکنی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ ہیں، جو دونوں ملکوں کے قریبی فوجی تعاون کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستانی آرمی چیف کے حالیہ دورہ ریاض سے دونوں ملکوں کے عوام کی جانب سے سکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی باہمی کوششوں کی تائید ہوتی ہے۔
دونوں ملکوں کے باہمی فوجی روابط کی طرح عوامی سطح پر تعلقات بھی تمام شک وشبے سے بالا تر ہیں۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں اور لاکھوں پاکستانی ہر سال مکہ اور مدینہ اظہار عقیدت کے لیے سفر اختیار کرتے ہیں۔ امت مسلمہ اور سعودی عرب کے لیے پاکستانی عوام کی محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان، سعودی عرب تعلقات سبوتاڑ کرنے کی حالیہ سازش سے سبق ملتا ہے کہ ہم ان تعلقات کا سیاسی بیانیہ ایسے ترتیب دیں جو دونوں ملکوں کے عوام کی امنگوں اور دیرپا دفاعی تعاون سے میل کھاتا ہو۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا سیاسی تعاون باہمی طور پر مربوط علاقائی پالیسیاں اور حکمت عملی تشکیل دینے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسلامی عقیدہ دراصل پاکستانی اور سعودی ثقافت میں رچا بسا ہوا ہے۔ اس لئے دونوں ملکوں کو اپنی دوطرفہ اور علاقائی پالیسیاں اور حکمت عملی انتہائی چابک دستی سے تشکیل دینی چاہئیں تاکہ ان میں اختلافات پیدا کرنے والی دشمن قوتیں ناکامی سے دوچار ہوں۔ حالیہ بحران سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حساس موضوعات پر ’پبلک ڈپلومیسی‘ سے گریز کیا جائے تاکہ پاکستان اور سعودی عرب کی تزویراتی شراکت کے لئے ضرر رساں مخصوص مفادات کو عمومی ایجنڈے پر حاوی ہونے کا موقع نہ مل سکے۔