بدھ ‘ 5 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘ 23؍ ستمبر 2020ء
ماہا قتل کیس کے دونوں ملزمان ضمانت مسترد ہونے پر عدالت سے فرار
آفرین ہے پولیس اور عدالتی سکیورٹی گارڈز پر جو انہوں نے ذرا بھر بھی مزاحمت کی ہو یا ان فراریوں کو روکنے کی کوشش کی ہو۔ یہ تو پھر دوملزم تھے جو دوڑتے ہوئے عدالت سے نکلے اور رکشے میں بیٹھ کر بھاگے۔ چند ہفتے قبل کراچی میں ایک اینکر پرسن کے قتل کا تنہا ملزم بھی انکے برعکس اطمینان سے ضمانت مسترد ہونے پر ٹہلتے ہوئے عدالت سے نکل کر فرار ہوا کیا مجال ہے جو کسی نے اسے روکا۔ اسکا اطمینان بتا رہا تھا کہ اسے کوئی جلدی نہیں سکیورٹی گارڈ اور پولیس اسکی جیب میں ہیں۔ عدالت کے باہر بھی وہ پیدل کافی دیر سڑک پر تنہا مٹرگشت کرتا رہا۔ اب ماہا قتل میں جو یہ دو ملزمان عدالت سے نکل کر بھاگے ان کی معاونت انکے وکلا نے بھی بھرپور طریقے سے کی انکو پکڑے جانے سے بچاتے رہے اور رکشہ میں سوار کر کے خود بھی رکشے میں بیٹھ کر چلے گئے۔ یہ ہوتی ہے دیدہ دلیری۔ ایک ملزم جنید کو تو ہتھکڑی بھی لگی ہوئی تھی۔ پولیس والوں کے تماشائی بننے کی کہانی بہت پرانی ہے۔ اہم واقعات میں ہمیشہ یہی لکھا جاتا ہے کہ پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔ویسے بھی جب کالے کوٹ والے بھاگنے والوں کی معاونت کر رہے ہوں تو انکے ہم رنگ بھائی کالی وردی والوںکا بھی حق ہے کہ وہ انکی راہ آسانی بنانے میں مدد دیں۔ ویسے تو احاطہ عدالت میں کسی کو داخل ہونے سے قبل کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ملزمان کی اس طرح دوڑ لگا کر اپنے وکلا کی ہم نشینی میں فرار ہونے پر کوئی قدغن نہیں۔ اب کیا عدالتوں پر خود کار گیٹ لگانا پڑیں گے کہ کوئی ان کو پھلانگ کر یا توڑ کر باہر نکلنے میں کامیاب نہ ہو۔ کیا کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اب تو واقعی
’’چھپتے پھرتے ہیں چیتے ہرن شکاری ہیں‘‘والی بات سچ لگنے لگتی ہے…
خواجہ سراؤں نے ’’آزادی پارٹی‘‘ بنا لی
مبارک ہواب ان کی ہی کمی رہ گئی تھی میدان سیاست میں۔ اب سیاسی میدان ان آزادی پسندوں کے آنے کی وجہ سے چاروں طرف ’’لڈی ہے جمالو پاؤ لڈی ہے جمالو‘‘کا راج ہو گا ویسے بھی ابھی تک تو انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل رہی ہے۔ جو چاہیں کریں ان سے کون پوچھتا ہے۔ یہ جہاں چاہتے ہیں بے دھڑک چلے جاتے ہیں۔ ٹھمکے لگاتے ہیں۔ ویلیں بٹورتے ہیں۔ ان کے دیکھا دیکھی بہت سے بے روزگار نوجوان بھی رات کو میک اپ کرکے چوکوں اور شاہراؤں پر غمزہ و ناز و ادا دکھلاتے یا بھیگ مانگتے نظر آتے ہیں۔ کئی آزاد خیال تو ٹیم یعنی گروپ بنا کر ناچ گانے کے پروگرام کر کے آزادانہ رزق کمارہے ہیں۔ کیا معلوم انکی وجہ سے ہی یہ ’’آزادی پارٹی‘‘ بنی ہو کہ خواجہ سراؤں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والے تمام بیرونی عناصر کو ان کی برادری سے باہر نکالا جائے ناچ گانے اور مانگنے یا ویلیں بٹورنے کام انہی کے ہاتھ میں رہے۔ ظاہری بات ہے اپنے کاروبار میں مداخلت کون برداشت کرتا ہے۔ اب اگر یہ پارٹی الیکشن لڑنے کے چکر میں ہے تو یہ بڑا مشکل کام ہے۔ ان کے پاس شاید اتنی افرادی قوت اور سرمایہ نہ ہو کہ یہ جیت سکیں ہاں البتہ مخصوص نشستوں پر چند سیٹس مل سکتی ہے۔ آخر یہ نشستیں بھی تو مخصوص لوگوںکے لیے ہی ہوتی ہیں۔ ویسے یہ آزادی پارٹی کی طرف سے اسمبلی میں آنے والے ممبران آئٹمز ہی ہونگے بڑے کمال کے ان کا چند رکنی گروہ بھی اسمبلی کو کشت زعفران بنانے کیلئے کافی ہے۔ جب یہ الیکشن مہم چلائیں گے تو ووٹ دیں نہ دیں انکو سننے کیلئے بہت سے منچلے دل پشوری کرنے ضرور آئیں گے۔اسمبلیوں میں بھی ان کی جملے بازی اور تالیاں خوب رنگ جمائیں گی۔
سلمان شہباز کے ملازمین بھی ارب پتی نکلے
حالانکہ حقیقت میں یہ بے چارے صرف اپنی پتنیوں کے ہی پتی ہیں۔ جیسے دودھ میں پتی صرف استعمال کے لیے ہوتی استعمال کے بعد اسے نکال کر باہر پھینکتے ہیں ویسے ہی یہ ملازمین بھی خواہ کسی بھی سرمایہ دار کی فیکٹری ملازم ہوں‘ گھریلو ملازم یا دفتری ملازم ہوں۔ اپنے ارب پتی ہونے سے بے خبر ہوتے ہی۔ انہیں تو شاید یہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان کے بے خبری میں کھولے گئے اکاؤنٹس میں اتنی رقم جمع ہے۔ شاید انہیں بتایا بھی اس لیے نہیں جاتا کہ کہیں وہ خوشی سے مر نہ جائیں۔ بہرحال بات ہو رہی تھی سلمان شہباز کے چپڑاسی اور کلرکوں کی جو ارب پتی ہیں۔ مجموعی طور پر انکی دو شوگر ملوں کے چند ملازمین کے بنکوں میں ساڑھے نو ارب روپے جمع ہیں۔ ہے ناں کمال کی بات۔ بے چارے چپڑاسی کے اکاؤنٹ میں 2 ارب 30 کروڑ ہیں اور وہ ڈیڑھ کروڑ کی مرسیڈیز کا مالک بھی نکلا دو کلرکوں کے اکاؤنٹ میں دو ارب 20 کروڑ تھے۔ اب کروڑوں روپے والے اکاؤنٹس کا تذکرہ ہی فضول لگتا ہے۔ اربوں کا ذکر ہی کافی ہے۔ یہ کوئی الف لیلوی داستان نہیں۔ دور حاضر کا قصہ ہے۔ ہمارے اشرافیہ کی دو نمبری کی کہانی ہے۔ جو چاروں طرف بکھری ہے اور لوگ مبہوت ہو کر سن رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں۔ مگر لب بندہیں۔ سانسیں اتھل پتھل ہیں۔ ہمت کسی میں کہاںکہ آواز بلند کرے۔ یہ ظالم اشرافیہ الگ الگ پارٹیوں میں ہونے کے باوجود اپنے مفادات کے لیے ایک ہوتے ہیں۔ جس پارٹی میں دیکھیں ایسے ہی لوگوں ہیں حکمران ہے۔ کیا اپوزیشن کیا حکمران سب انہی اشرافیہ پر مشتمل ہیں۔ یہ مال لگاکر غریبوں کی آواز اور ووٹ بھی خرید لیتے ہیں۔ تو شور محشر کہاں سے برپا ہو۔
ایم کیو ایم کا 24 ستمبر کو ’’کراچی مارچ‘‘ کا اعلان
تو جناب ہو جائیں تیار اب باقی سیاسی جماعتوں کو ایکشن میں دیکھ کر ایم کیو ایم (پاکستان) بھی انگڑائیاں لینے لگی ہے۔ کراچی پر عرصہ دراز سے ایم کیو ایم پنجے گاڑے بیٹھی ہے۔ لوگ سرعام کہتے ہیں کہ کراچی کے مسائل کی ذمہ داری سندھ حکومت کے ساتھ ایم کیو ایم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کراچی میں امن و امان اور لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی وجہ سے گلیاں اور بازار محفوظ نہیں ہیں بھتہ خوری عام ہے ان نیک اعمال میں حصہ بقدر جثہ سب سے زیادہ ایم کیو ایم کا ہے ویسے ہی جس طرح دیہی سندھ میں حکمرانوں اور ان کے چہیتوں کی بدولت ڈاکو راج قائم ہے۔ اب خدا جانے مارچ کے منتظمین کن کے حقوق کے لئے یہ مارچ کر رہے ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ خود کراچی کے عوام اپنے حقوق کے حصول کے لئے باہر نکلیں۔ اپنے پر راج کرنے والے چوروں، ڈاکوئوں ، رسہ گیروں سے نجات کی راہ نکالیں۔ یہ مافیاز ختم ہوں گی تو کراچی خودبخود’’ مارچ‘‘ یعنی موسم بہار کا روپ دھارے گا اور ہر طرف امن و سکون قائم ہو گا۔ لوگ سکون کا سانس لیں گے۔ کراچی ایک بار پھر عروس البلاد بن کر دبئی، شارجہ اور ممبئی کو شرمائے گا۔