ملک میں سیاسی رواداری کی فضا مستحکم کرنا قومی سیاسی قیادتوں کی ذمہ داری ہے
عسکری قیادت کا جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہونے اور فوج کو سیاست سے دور رکھنے کا ٹھوس پیغام
ملک کی عسکری قیادت نے واضح کیا ہے کہ فوج کا ملک میں کسی بھی سیاسی عمل سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق نہیں اور فوج کو سیاسی امور سے دور ہی رکھا جائے۔ قابل اعتماد ذرائع کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی چند روز قبل سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران سیاسی قیادتوں پر واضح کیا گیا کہ کوئی سیاسی جماعت ہماری ترجیح نہیں ہے ضرورت پڑنے پر فوج ہمیشہ سول انتظامیہ کی مدد کرتی رہے گی۔ الیکشن ریفارمز، نیب اور سیاسی معاملات میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں یہ کام سیاسی قیادت نے خود کرنا ہے۔ ملاقات میں عسکری قیادت کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ فوج انتخابات میں صرف سکیورٹی کی ذمہ داری لے گی۔ الیکشن کرانا الیکشن کمشن کا کام ہے۔ سیکیورٹی کی ذمہ داری بھی صرف ان علاقوں میں لی جائے گی جہاں ضروری ہو گا۔ وزیراعظم کے بیانات کے حوالے سے عسکری قیادت نے باور کرایا کہ تمام سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بیان دیتے ہیں۔ نیب قانون بدلنا ہے تو سیاسی قیادت مل کر بدلے۔ دوران ملاقات آرمی چیف نے واضح کیا کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ نظام چلتا رہے گا۔
سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی قیادتوں سے عسکری قیادت کی یہ ملاقات اگرچہ گلگت بلتستان کے مستقبل کے سیٹ اپ کے حوالے سے تھی جس کی متذکرہ علاقوں کے حوالے سے بھارتی مذموم پروپیگنڈاکے تناظر میں ضرورت بھی تھی تاہم ملاقات کے دوران ملک کے سیاسی معاملات بھی زیر غور آئے تو آرمی چیف نے خوش اسلوبی کے ساتھ عساکر پاکستان کے فرائض، آئینی ذمہ داریوں اور کردار کی جانب ملک کی سیاسی قیادتوں کی توجہ مبذول کرائی اور دو ٹوک انداز میں باور کرا دیا کہ عساکر پاکستان کا ملک کے سیاسی معاملات اور انتظامی امور میں سرے سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ماسوائے اس کے کہ انہیں آئین کے تقاضہ کے تحت، سول انتظامیہ کی معاونت کے لیے طلب کیا جائے۔ اس میں بھی عساکر پاکستان نے اپنے محدود کردار کے اندر ہی رہنا ہے۔ اس لئے فوج کو سیاسی معاملات سے دور ہی رکھا جائے۔ انہوں نے جمہوریت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہونے کا بھی یقین دلایا جو باہمی محاذ آرائی اور بلیم گیم کے نتیجہ میں گھمبیر ہونے والی سیاسی کشیدگی کی فضا میں بلاشبہ تازہ ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی رواداری کے معاملہ میں ہمارا ماضی کوئی زیادہ تابناک نہیں اور سیاست دان اپنے مفاد اور اقتدار کی خاطر سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی کی فضا گرم کر کے اسٹیبلشمنٹ اور ماورائے آئین اقدام والوں کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا موقع فراہم کرتے رہے ہیں نتیجتاً ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری مستحکم نہ ہو پائی اور اس وطن عزیز کے 34 قیمتی سال سیاستدانوں کی اسی باہمی کش مکش میں ماورائے آئین اقتدار کی نذر ہو گئے بے شک قومی سیاسی قائدین نے اپنی ماضی کی ان غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر چارٹر آف ڈیمو کریسی (میثاق جمہوریت)وضع کرکے عہد کیا کہ آئندہ کسی بھی جمہوری حکومت کو ماورائے آئین اقدام کے تحت ختم کرانے کے لئے اپنا کندھا فراہم نہیں کیا جائے گا۔ اس کے باوجود اپنے سیاسی مخالفین کا اقتدار قبول اور برداشت نہ کرنے والا کلچر برقرار رہا اور سیاست دانوں نے اس حوالے سے ماضی کی غلطیوں سے بھی کوئی سبق حاصل نہ کیا اور وہ باہمی محاذ آرائی برقرار رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کو ماورائے آئین اقدام کی دعوت دیتے رہے۔
بے شک ہماری عدلیہ نے بھی 2007ء میں ججز بحالی کیس کے فیصلہ کے تحت خود سے منسوب نظریہ ضرورت کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے کا اعلان کرکے اس سے اپنا دامن چھڑا لیا تاہم ہماری قومی سیاسی قیادتوں نے سیاسی مخالفت میں ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کی روش برقرار رکھی۔ 2008ء کی اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی حکومت کے لئے عدلیہ کے جوڈیشل ایکٹوازم کے راستے ہموار کیے اور حکومت کے لئے ’’صبح گیا، شام گیا‘‘ والی فضا استوار کیے رکھی جبکہ 2013ء کی اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب اور عمران خان کے نئے پاکستان کے نعروں‘ لانگ مارچ اور طویل دھرنا تحریک کے باعث صبح گیا شام گیا والے مناظر دیکھنا پڑے جبکہ پارلیمنٹ کو بچانے کے لئے تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوگئیں۔ اس فضا میں امپائر کی انگلی اٹھنے کے پیغامات بھی بار بار دیئے جاتے رہے تاہم ملک کی عسکری قیادت نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے سوا کوئی دوسرا قدم اٹھانے سے مکمل گریز کی پالیسی طے کرلی تھی جن کا باہمی محاذ آرائی میں مصروف سیاستدانوں کو احساس بھی دلایا جاتا رہا۔ اس لئے عسکری قیادتوں کے اس عہدوعزم کی بنیاد پر سیاستدانوں کی بار بار کی انگیخت کے باوجود ملک میں جمہوریت کی گاڑی گزشتہ 12سال سے ٹریک پر رواں دواں ہے اور جمہوری نظام کو استحکام حاصل ہو رہا ہے۔
اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمہوری نظام کو رواں دواں رکھنے کے اسی عہد کا ٹھوس انداز میں اعادہ کیا ہے اور باور کرایا ہے کہ فوج کا کسی بھی سیاسی عمل سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس نے آئین کے مطابق سکیورٹی کے معاملات میں حکومت کی معاونت کرنی ہے چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو تو اب باہمی محاذ آرائی میں مصروف اور جمہوریت کا حلیہ خراب کرنے کی کوششوں میں مگن سیاستدانوں کو ہی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور جمہوریت کے ثمرات عوام الناس تک پہنچا کر جمہوریت کے بارے میں ان کے دلوں میں راسخ ہونے والی بدگمانیاں بھی ختم کر دینی چاہئیں۔ ملک کے دفاع وسلامتی کے معاملات اور گڈ گورننس کے حوالے سے ریاستی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں تمام قومی‘ ریاستی ادارے باہم یکجہت اور ایک دوسرے کے معاون ہوں گے تو ملک کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوگا نہ جمہوریت کو، ایسی مثالی فضا سیاسی رواداری کو فروغ دینے کی متقاضی ہے جس کا آج ہماری قومی سیاست میں فقدان ہے۔