ساری دنیا کی نظریں اس پر مرکوز ہیں۔ ہر پاکستانی کی نظر اس پر مرکوز ہے۔ ہر بھارتی کی نظر اس پر مرکوز ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظریں اس پر مرکوز ہیں اور مظلوم کشمیریوں کے بند اور تاریکی میں ڈوبے آنگنوں میں اس مشن کی روشن شمع جھلملا رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے سفیر کے طور پر امریکہ کے سات روزہ دورے پر واشنگٹن پہنچ چکے ہیں ۔ یہ ایک ہفتے کا طویل دورہ ہے جو اخراجات کے لحاظ سے سب سے زیادہ باکفایت لیکن نتائج کے ا عتبار سے سب سے زیادہ مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔وزیر اعظم ا مریکہ جیسی سپر پاور کے دارلحکومت واشنگٹن اور اقوام متحدہ کے ہیڈ آفس نیو یارک میں اپنی موجودگی سے فائدہ ا ٹھاتے ہوئے سفیر کشمیر کے طور پر گراں قدر خدمات انجام دینے والے ہیں۔ وزیر اعظم کا دورہ تاریخ میں گیم چینجر کی حیثیت سے یاد گار رہے گا۔ جیسے جیسے کیلنڈر پر تاریخ آگے کی طرف سرک رہی ہے، کشمیریوں کی عقوبت کے دنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پانچ اگست سے کشمیر کو ایک جیل خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ دنیا میں کبھی ایسانہیں ہوا کہ کسی خطے اور اس کی پوری قوم کو قید خانے میں جھونک دیا گیا ہو لیکن کشمیریوں کو انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اجتماعی طور پر کرفیو کی پابندیوں کا شکار بنایا گیا ہے۔ ٹیلی فون بند کر دیئے گئے ہیں ۔ انٹر نیٹ اور وائی فائی کی بندش سے کشمیریوں کا رابطہ پوری دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے ۔ کوئی شخص اپنے ہمسائے سے نہیں مل سکتا۔ بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی سہولت حاصل نہیں کر سکتا۔ سکول کالج اور مسجدیں بند ہیں۔ اگر کوئی باہرنکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے پیلٹ گنوں سے اندھا کر دیا جاتا ہے۔ چار ہزار نوجوانوں کو گھروںسے اٹھا کر کشمیر سے باہر تفتیش کے لئے لے جایا گیا ہے اور نو ہزار کے قریب کشمیری لیڈروں اور کارکنوں کو جیلوں میں ٹھونسا جا چکا ہے۔ظلم اور جبر کی اس انتہا کو ہٹلر اورمسولینی جیسے ڈکٹیڑ بھی نہیںپہنچے تھے، وہ بھی ہولو کوسٹ کے مجرم تھے لیکن کشمیر میں نسل کشی ہٹلر کے نازی جرمنی سے بڑی ہولوکاسٹ ہے۔ یہ ہے وہ سنگین صورت حال جسے وزیر اعظم عمران خاں کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنی ہیں۔ وزیر اعظم اس نکتے پر بھی زور دیں گے کہ کشمیر کا مسئلہ ستر برسوں سے حل طلب ہے۔ سلامتی کونسل کی متفقہ منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں اسے استصواب کے ذریعے حل ہونا تھا جس سے بھارت نے ہمیشہ انکار کیا اور اب تو اسنے اس متنازعہ خطے کو ایک آئینی ترمیم کر کے اپنے ملک کا حصہ بنا لیا ہے اورا سکی وہ خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے جس کی یقین دہانی بھارتی آئین بنانے والوں نے کشمیریوں کو دی تھی اور اس سے بھی بڑھ کر مہاراجہ کشمیر کے اس قانون کو بھی ختم کر دیا گیا جو کشمیر سے باہر کے لوگوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے سے روکتا تھا۔ اب ہر کوئی دندناتے ہوئے کشمیر جا سکتا ہے اور کسی بھی جائیداد پر قابض ہو سکتا ہے یہ وہی کھیل ہے جسے فلسطین میں یہودیوںنے کھیلا۔ ’’اعلان بالفور‘‘ اس کی بنیاد تھا ، اس اعلان کے بعد فلسطینی مٹتے چلے گئے اور یہودی پر پھیلاتے چلے گئے۔ اب کشمیر میں مسلمانوں کا وجود مٹا کر بھارتی ہندو یہاں آن بسیں گے اور کشمیر کی ڈیمو گرافی تبدیل ہو جائے گی۔ اس کے بعد اگر استصواب بھی ہو گیا تو نتائج بھارت کے حق میں آئیں گے۔وزیر اعظم کے اگلے سات روز انتہائی مصروف ہیں ، انہیں صدر ٹرمپ سے بھی ملنا ہے ۔یو این او کے سیکرٹری جنرل سے بھی مل کر یہ استدعا کرنی ہے کہ وہ تنازعہ کشمیرکے حل کے لئے کردار ادا کریں۔انسانی حقو ق کی تنظیموں پر بھی کشمیریوں کی ابتلا کو واضح کرنا ہے اور ایک ملاقات اس ایجنڈے سے ہٹ کر بل گیٹس سے بھی ہو گی جو پاکستان میں خیراتی کام میں فنڈنگ بڑھانا چاہتے ہیں۔امریکہ میں موجود پاکستانی اور کشمیری بھی ان دنوں بے حد فعال رہیں گے اور ان کے ساتھ بھارتی سکھ بھی احتجاج میں برابر شریک ہوں گے جو کشمیر کے ساتھ ساتھ خالصتان کے قیام کے لئے ریفرنڈم کا مطالبہ کریں گے۔ ان لوگوں کی سرگرمی اس دن عروج پر ہو گی جب بھارتی وزیر اعظم ٹیکساس میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کریں گے۔ پاکستانیوں،کشمیریوں اور سکھوں کا کہنا ہے کہ جتنے لوگ مودی کی تقریب میں ہوں گے، اسی وقت اس سے بڑ امظاہرہ مودی کی تقریب کے سامنے سڑکوں اور گلیوں پر ہو رہا ہو گا۔ کینیڈاا ور امریکہ سے بڑی تعدادمیں لوگ مودی کے خلاف اس مظاہرے میں شرکت کے لئے جمع ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب مودی کی تقریر جنرل اسمبلی میں ہو گی تو یو این او کی عمارت کے سامنے بھی ایساہی عظیم الشان مظاہرہ ہو گا اور مودی کی مذمت میںنعرے بازی کی جائے گی اور کشمیریوں اور سکھوں کی آزادی کے حق میں مطالبات پیش کئے جائیں گے۔ ستائیس ستمبر کا وہ تاریخی دن ہے جس کے لئے دلوں کی دھڑکنیں ابھی سے تیز ہو رہی ہیں ۔ اس روز جنرل ا سمبلی میں وزیر اعظم عمران خاں کا خطاب ہو گا، دنیا بھر کے حکمران اس خطاب کو شوق سے سننے کی خواہش کاا ظہار کر چکے ہیں ، میرے نزدیک عمران کا یہ خطاب اسی قدر اہم ہو گا جس قدر ایک زمانے میں یہاں یاسر عرفات نے خطاب کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے ایک ہاتھ میں امن کی نشانی زیتوں کی شاخ ہے اور دوسرے میں کلاشنکوف۔ اب دنیا فیصلہ کرے کہ وہ میرے کس ہاتھ کو تھامتی ہے ا ور کس ہاتھ کو جھٹکتی ہے، یاسر عرفات کی اس تقریر نے ایک تاریخ رقم کی تھی ۔ میں اپنے پچپن سالہ صحافتی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ عمران کے لئے یہ خطاب نائو آر نیور کی مثال ہو گا۔اب یا کبھی نہیں کی اسپرٹ کے پیش نظر وہ اپنا مافی الضمیر بیان کریں گے اور یہ ممکن نہیں کہ کوئی ان کے منہ پر ان کی دلیل کو رد کرسکے۔اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران سائیڈلائن پر وزیر اعظم عمران خان ایک درجن سے زائد عالمی راہنمائوں سے ملیں گے اور انہیں کشمیریوں کی حمایت کے لئے قائل کریں گے۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے اتنی بڑی مہم ملکی تاریخ میں کبھی نہیں چلائی گئی۔ حکومت نے سب سے
پہلے پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس طلب کیا جس میں قومی نمائندوںنے متفقہ قراداد منظور کی، وزیر اعظم نے آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیاا ور ایک جمعہ کو مظفر آباد میں عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ سینیٹ کی طرف سے کشمیر پر پارلیمانی لیڈروںنے تقاریر کیں اور وزیر اعظم اورا ٓرمی چیف نے یہاں تک کہا کہ وہ کشمیر کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔ دنیا کو ان الفاظ کے معانی سمجھنے میںکوئی غلطی نہیں کرنی چاہئے ۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کے نازی ازم کی وجہ سے خدا نخواستہ وہ بد بخت گھڑی آ سکتی ہے جسے ہم آخری حد کہہ رہے ہیں ،اس آخری حد کے سامنے صرف دنیا کا ایکٹو کرادر ہی دیوار بن سکتا ہے اور وزیر اعظم کا امریکہ میں کشمیر مشن اسی ایک لمحے کو فوکس کرتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024