لگا کے آگ بادشاہ شہر کو بولا، اٹھا ہے آج دل تماشے کا شوق بہت، سر جھکا کے سب شاہ پرست یہ بولے، حضور شوق سلامت رہے شہر اور بہت!!!
پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ بھی آگ لگانے اور تباہی پھیلانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ ایسے پیشہ ور ہیں جو اچھے بھلے نظام کو تباہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین چھ ٹیموں والے نظام کے ذریعے کرکٹ کی تباہی کی بنیاد رکھنے کے بعد اب ایک اور کامیاب اور منافع بخش منصوبے پاکستان سپر لیگ کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اللہ پی ایس ایل کو ان کی"انا"کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رکھے۔ جس انداز میں پی ایس ایل کے معاملات چلائے جا رہے ہیں اس سے لیگ کا انعقاد ہی خطرے میں نظر آتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے پی سی بی نے اب تک سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں کیے۔ کرکٹ بورڈ اور پی ایس ایل فرنچائز کے مابین اختلافات میں شدت آتی جا رہی ہے۔ یعنی وہ تعلقات کو کبھی مثالی تھے۔ احسان مانی کی آمد سے ان کا درجہ بدلا تعلقات میں سرد مہری آئی اور اب تو فریقین کے مابین تعلقات ابنارمل ہو چکے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ نارملائزیشن کے لیے کوئی کام نہیں ہو رہا اور اس طرف توجہ بھی نہیں دی جا رہی۔پی سی بی ہیڈ کوارٹرز کی پہلی منزل پر موجود ملکی و غیر ملکی مل کر پاکستان سپر لیگ کو آمرانہ انداز میں چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طاقت کے زور پر محکمانہ کرکٹ کو ختم کرنے کے بعد بورڈ حکام شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ پاکستان سپر لیگ کو بھی اسی آمرانہ انداز میں چلائیں گے۔ اپنی مرضی کریں گے کسی کی بات نہیں سنیں گے اور جو دل چاہے گا وہی کریں گے۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ اور پاکستان سپر لیگ میں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ پر پاکستان کرکٹ بورڈ ایک ارب سے زائد سالانہ خرچ کر رہا ہے جبکہ پاکستان سپر لیگ سے آئندہ سال تین ارب ساٹھ کروڑ سے زائد آمدن متوقع ہے۔ محکمانہ کرکٹ حکومت کے خوف سے ختم ہوئی ہے، وزیراعظم کی طاقت نہ ہوتی تو محکمانہ کرکٹ کو ختم کرنا اتنا آسان نہ ہوتا۔ حکومت نے اداروں کی ٹیموں کو ختم کرنے کے لیے اپنی طاقت استعمال کی جب کہ پاکستان سپر لیگ میں سرمایہ کاری کرنے والے کسی سرکاری ادارے یا وزیراعظم کے ماتحت نہیں ہیں۔
ایک طرف سرمایہ کاروں کو بلایا جا رہا ہے تو دوسری طرف پی ایس ایل میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ کو چلانے والوں اور پاکستان سپر لیگ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے ساتھ ایک ہی انداز میں بات کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ طاقت، اختیار اور اقتدار کے زعم میں ملکی مفاد کے سب بڑے منصوبے کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
محکمانہ کرکٹ کا اغاز، نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا قیام اور اس کے بعد ملکی کرکٹ میں سب سے بڑی تبدیلی اور کامیاب منصوبہ پاکستان سپر لیگ ہے۔ اس لیگ کی افادیت پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ حقیقی معنوں میں پی ایس ایل نے ملکی کرکٹ کو نئی زندگی دی ہے۔
گذشتہ دنوں لاہور قلندرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر آفیسر عاطف رانا کا نوائے وقت میں ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے انتہائی محتاط انداز میں بہت باتیں کیں۔ انٹرویو میں سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد سے میڈیا میں پی ایس ایل اور فرنچائز کے مابین اختلافات کے حوالے سے مسلسل لکھا جا رہا ہے۔
عاطف رانا کہتے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ نے ملک میں کرکٹ کو نئی زندگی دی ہے۔ ملکی کرکٹ کی تاریخ میں اس پراجیکٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہمیں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پی ایس ایل کا فائدہ پاکستان کا فائدہ اور پاکستان سپر لیگ کا نقصان ملک کا نقصان ہو گا۔ اس لیگ نے بیرونی دنیا میں پاکستان کا خوش کن تاثر ابھارا ہے۔ایسے وقت میں جب پاکستان بیرونی دنیا میں اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو چکا تھا اس لیگ کے آغاز سے اعتماد کی بحالی کا کام شروع ہوا اور آج اس کے ثمرات دنیا کے سامنے ہیں۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کو ادائیگیوں کے معاملے پر بھی کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ جب ہم نو گو ایریا بنے ہوئے تھے اس وقت لیگ کا آغاز مشکل فیصلہ تھا۔ اس لیگ کی کامیابی میں تمام سٹیک ہولڈرز نے دن رات محنت کی ہے۔ یہ ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد اور انوکھا تجربہ تھا جہاں ہم اپنی مارکیٹ سے دور بیرون ملک یہ تجربہ کر رہے تھے لیکن پاکستان اور کرکٹ کی محبت میں مل جل کر کام کرنے کی وجہ سے ہمیں کامیابی ملی۔ ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو کئی ممالک ایسے ہیں جو ٹونٹی ٹونٹی لیگز بند کر رہے ہیں کچھ ایسے ہیں جو باوجود کوششوں کے ایسے پراجیکٹ نہیں کر سکے۔ ہم نے نا صرف پی ایس ایل شروع کی بلکہ اسے کامیاب بھی بنایا ہے۔ وہ تمام فرنچائز مالکان جو ابتدا میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھی بنے لیگ کی کامیابی اور اسے مستحکم بنانے میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیگ کا آغاز ایسا مشکل وقت تھا جب سرمایہ کاروں کی لیے اس میں کوئی کشش نہیں تھی۔ وہ بڑے مالی نقصان کے پیش نظر اس منصوبے کو اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ آج سب اس لیگ کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں تو یہی اس کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ابتدائی دنوں میں کرکٹ بورڈ کا ساتھ دینے والے فرنچائز مالکان اس لیگ کا اصل چہرہ اور شناخت ہیں۔ ہمیں اس وقت زیادہ محنت، تحمل مزاجی اور سمجھ بوجھ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اہم معاملات میں مشاورت اور فیصلہ سازی میں سٹیک ہولڈرز کی رائے کو اہمیت دینے کی حکمت عملی ہی کسی بھی مشترکہ کاروبار کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت، خدمات اور افادیت کو سمجھنا ہو گا۔ اعتماد بنانے میں وقت اور محنت لگی ہے۔ یہ لیگ ہی پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہے۔
بورڈ انتظامیہ لیگ کے حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، کبھی ورکنگ گروپ بنتے ہیں تو کبھی ری سٹرکچرنگ پر کام شروع ہو جاتا ہے، کبھی کام سمجھنے کے لیے وقت لیا جاتا ہے تو کبھی وسیم خان کی آمد تک اہم معاملات کو روک لیا جاتا ہے، کبھی وسیم خان کو سمجھنے کے لیے وقت چاہیے تو کبھی کسی اور کو، جب مسائل سلجھائے نہیں جاتے تو بات دھمکیوں تک آ جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی سی بی نے اب تک چوتھے ایڈیشن کے اکاؤنٹس شیئر کیوں نہیں کیے، فرنچائز کو جو تحفظات تھے انہیں دور کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں، کیا ہر سال ایک ٹیم کا معاہدہ منسوخ کرتے ہوئے نئی انتظامیہ کو شامل کرنا پاکستان سپر لیگ کے مفاد میں ہے، کیا مسلسل ٹیموں کے مالکان کے بدلنے بیرونی دنیا میں اچھا تاثر جائے گا، ان حالات میں سپانسرز کو کیسے قائل کیا جائے گا، کہیں ایسا تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی لاڈلے کو مالی نقصان سے بچانے کے لیے نظام ہی لپیٹنے کی تیاری کی جا رہی ہے، کرکٹ بورڈ نے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کی آڈٹ رپورٹ کو جان بوجھ کر تو متنازعہ نہیں بنایا۔
حالات کسی بڑے طوفان کی خبر دے رہے ہیں۔ لیگ کا آغاز مشکل حالات میں ہوا تھا جب مشکل وقت تو گذر چکا پھر مشکلات کیوں ہیں، ہم عدم اعتماد سے اعتماد کا سفر کامیابی سے طے کر چکے ہیں،لیگ عدم استحکام سے استحکام کی منازل طے کر چکی ہے تو پھر رکاوٹیں کیوں ہیں۔ ہم امپورٹڈ انتظامیہ لا چکے ہیں، دو ملین،تین ملین ماہانہ تنخواہیں اداکر رہے ہیں اس کے جواب میں مسائل میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔
صورت حال سنجیدہ گفتگو اور فوری فیصلوں کا تقاضا کر رہی ہے۔ اگر کوئی کرکٹ ایڈمنسٹریشن کے وسیع تجربے کا دعویدار ہے تو اسے سامنے آ کر ملکی کرکٹ کے اس اہم ترین منصوبے کو بچانے اور ترقی کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر پی ایس ایل کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ پاکستان کا نقصان ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024