سعودی عرب اور امارات میں مزید امریکی فوج بھیجنے کی منظوری
امریکہ نے خلیج کے حالات میں پیدا شدہ نئی کروٹ کے تناظر میں مزید فوج سعودی عرب اور امارات بھیجنے کی منظوری دی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کا مسئلہ جنگ کے بغیر ہونا بہتر ہے۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، سعودی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ کارروائی یمن سے نہیں شمال سے کئی گئی ادھر پاسداری انقلاب نے جواب دیا کہ ایران پر حملہ کرنے والے ملک کو میدان جنگ بنا دیں گے۔
یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک میں کئی ریاستیں تعلقات میں سردمہری کا شکار ہیں اور یہ بھی درست ہے کچھ ریاستیں تو ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہوتی رہی ہیں مگر اختلافات میں دشمنی کی دیوار کھڑی کرنا دانش مندی نہیں، مسلم ریاستوں کے آپس کے اختلافات سے ہمیشہ دوسروں نے فائدہ اٹھایا اور یہی ماضی کا سبق ہے۔ حیرت ہے کہ مسلم حکمران آج بھی ماضی سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ خلیج کی تازہ ترین صورت میں آنے وال کروٹ کی وجہ سعودی آئل تنصیبات پر ڈرون اٹیک میں پہلے امریکہ نے کہا کہ ڈرون اٹیک کا ذمہ دار ایران ہے اور اب سعودی عرب باقاعدہ طور پر ایران کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے۔ سعودی وزیر مملکت امور خارجہ عادل الجیئر نے ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایرانی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے ہم آئل تنصیبات پر حملے کی ذمہ داری ایران پر ڈالتے ہیں یقین ہے کہ حملے یمن سے نہیں شمال کی طرف سے کئے گئے۔ امریکہ کی مزید فوج سعودی عرب اور امارات میں آنے کا بظاہر ملکی سکیورٹی کو بہتر بنانا ہے لیکن اس صورتحال میں خلیج میں کسی نئے گیم پلان کے شروع ہونے کے امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ریاض کے سلیمان ائربیس پر امریکہ کے 600 فوجی پہلے ہی موجود ہیں۔ مزید فوجیوں کی آمد سے سکیورٹی اور دفاع کا نظام تو بہتر ہو جائے گا مگر اس سے اتحاد امت پر سوالیہ نشان ضرور لگے۔ ایران سعودی عرب کشمکش سے بااثر مسلم حکمرانوں کو آگے بڑھنا چاہئے۔ او آئی سی میں موثرکردار ادا کرے۔ تاکہ صورتحال بند گلی میں جانے سے روکی جائے۔ اختلاف کو یوں ہی دشمنیوں کا جامہ پہنایا جاتا رہا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ اتحاد امت کیلئے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ امہ توقع رکھتی ہے کہ اس کی لیڈر شپ بصیرت افروز اقدامات اٹھائے گی۔
’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے‘‘