کون جانے وقت کی کیا چال ہے؟
بجٹ خسارہ 40 سال میں اتنا کبھی نہیں ہوا جتنا اب ہے تمام مالیاتی بیماریوں کی جڑ یہی خسارہ ہے۔ یہ جی ڈی پی کا 8.9 فیصد یعنی 3.4 کھرب روپے ہے۔ بنگلہ دیش کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد جبکہ بھارت کا 3.4 فیصد ہے۔ ہم دونوں ہمسایوں سے نیچے جا رہے ہیں۔ ستمبر 2018ء میں ڈیٹ ٹو جی ڈی پی ریشو 80 فیصد تھی جو 9 ماہ بعد 104 فیصد ہو گئی۔ پبلک سیکٹر اداروں کا خسارہ 2.1 کھرب روپے ہے۔ ستمبر 2018ء میں یہ خسارہ 1.3590 کھرب روپے تھا۔ وفاق پر مجموعی قرضوں کا بوجھ 40 کھرب روپے ہے۔ زرداری حکومت قرضوں کو 6 کھرب سے 16 کھرب روپے پر لے گئی۔ ن لیگ نے 16 کھرب سے 30 کھرب روپے تک پہنچا دیا۔ گویا نہلے پر دہلا ہوا۔ عمرانیات نے صرف ایک سال میں 30 سے 40 کھرب کر دیا۔ اتنی تیز بائولنگ کسی عہد میں نہیں دیکھی گئی۔ ضلعی حکومتیں مزارات اور ہسپتالوں کے سائیکل سٹینڈوں جوتوں اور بیت الخلا کے ٹھیکوں کی کمائی پر چل رہی ہیں۔ ایکسپورٹ ٹارگٹ 28 ارب ڈالر سیٹ کیا گیا۔ سیمنٹ اور پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں 25 سے 50 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ بینکوں والے قرضے لئے بیٹھے ہیں کوئی گاہک ہاتھ نہیں لگ رہا۔ عمران خان اکیلے کا آہنی مکا کہاں کہاں کام دکھائے گا۔ کالجوں میں نائب قاصد پرنسپل کی ہر روز جھاڑیں کھانے کے عادی ہو جاتے ہیں لیکن کلاس روموں کی ڈسٹنگ نہیں کرتے۔ خبر ہے او جی ڈی سی ایل نے کوہاٹ میں تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کر لیے ہیں چند سال پہلے چنیوٹ سے بھی سونے کی کانیں برآمد ہونے کی خوش خبری ملی تھی اور چند ماہ قبل سمندر سے بھی پانی کی جگہ تیل ملنے کے شادیانے بجنا شروع ہو گئے تھے۔ سمندری حدود سندھ اور بلوچستان میں تیل کون نکالنے دے گا اور کون نکالے گا؟ حکمران کہتے ہیں عوام کو مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے لیکن عوام ایسے عوام دشمنوں ہی نہیں ہر حکومت وقت کے رحم و کرم پر رہے ہیں۔ مہنگائی ایک شراکتی کاروبار ہے جس میں دو شرکاء گراں فروش اور حکومت ہوتے ہیں۔ تیل یوٹیلٹی بلوں سیلز ٹیکس کا ریموٹ تو حکومت کے ہاتھ میں ہوتا ہے باقی رہی سہی کسر آڑھتی تھوک فروش پرچون فروش اور ریڑھی والے پوری کر دیتے ہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں نے کام کوئی نہیں کیا جبکہ کریک ڈائون محض ایک لفظ ہے جس سے رشوت جنم لیتی ہے معمولی ریڑھی والا بھی سینہ چوڑا کر کے سودا بیچتا ہے۔ پتہ نہیں کریک ڈائون کب اور کس کے خلاف ہوتا ہے۔
پاکستان نے بھارت کیساتھ بیک ڈور مذاکرات سے انکار کرد یا ہے۔ پہلے وادی میں کرفیو اور دیگر پابندیاں ختم اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا مطلب کیا ہے۔ رواں ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کو یہ باور کرایا جائے گا کہ بھارتی حکومت کشمیر میں جو کچھ کر رہی ہے اس پر عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی خاموشی پاکستان کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ ہر نگاہ منتظر ہے کہ عمران خان کشمیر پر اقوام متحدہ میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ اپوزیشن کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو رہا ہے۔ خورشید شاہ بھی سینہ چاکان چمن سے جا ملے ہیں کیا صرف خورشید شاہ کے ہی آمدن سے زائد اثاثے ہیں، آمدن سے زائد اثاثے تو گریڈ ایک سے گریڈ 22 تک کے سرکاری ملازموں کے سامنے آ سکتے ہیں۔ کوئی سرکاری افسر ہو انسپکٹر ہو اور پھر آمدن سے زائد اثاثے اس میں دور ہوں یہ تو ممکن ہی نہیں۔ اپوزیشن کا ستارہ ہی گردش میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن ہر قیمت پر حکومت کو گرانے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔ خورشید شاہ کے بعد انہیں بھی آواز پڑ سکتی ہے۔ میڈیا پر پہلے بھی برا وقت آتا رہا۔ سنسر شپ کی قینچی چلتی تھی۔ پریس ایڈوائس سے کوئی صرف نظر کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ مجید نظامی اور نثار عثمانی جیسے شیروں کی طرح باوردی حکمرانوں کو للکارنے والے اب کہاں؟ اپوزیشن کے بعد میڈیا کی باری لگ چکی ہے۔ میڈیا ٹربیونلز جمہوری کلچر کے استحکام میں رکاوٹ ثابت ہونگے۔ حکومت کو کچھ کرنا ہے تو صحافت سے ڈمی اخبارات اور نام نہاد نان پروفیشنل صحافیوں پر کاری ضرب لگائے۔ اخبارات وہی ہیں‘ قارئین کی نگاہیں جن کا ہر صبح بے تابی سے انتظار کرتی ہیں۔ ڈمی اخبارات دراصل صحافت کی ریڑھیاں ہیں۔ ریڑھی والے کیلئے کسی کوالیفکیشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس آواز کا گرجدار ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف کے اعلامیہ کے مطابق مہنگائی کم ہو گی‘ لیکن معاشی صحت کو لاحق خطرات برقرار رہیں گے۔ کشمیر کاز کیلئے ہمیں غیرمعمولی اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ بنک کے نزدیک مزید 2 سال مہنگائی رہ سکتی ہے۔ شرح سود 7.50 فیصد سے بڑھ کر 13.25 تک پہنچ چکی ہے۔ کشمیر اور پاک افغان بارڈر آئے روز ہمیں شہادتوں کے تحفے دے رہے ہیں۔ ایسے میں ہمسایوں سے خوشگوار تعلقات کا سوچنا بھی عبث ہے۔ بچوں کی گمشدگی اور اغوا کے واقعات طلاقوں کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں۔ سبسڈی کے خاتمے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ اب سرکاری اداروں پر قرضہ لینے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تمام اضافی اخراجات پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے سے کوئی نیا کام شروع نہیں ہو رہا روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ 10 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ٹیکسوں کے شکنجے سے نکلنے کیلئے تاجروں نے 9 اکتوبر کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں مشرف دور کی واپسی ہو رہی ہے سب قانون اور سزائیں عوام کیلئے ہیں ۔ خواص کیلئے ہی بارگین اور این آر او کی کھڑکیاں موجود ہیں۔ ایف بی آر اور ملک بھر کے تاجر تصادم کی راہ پر چل پڑے ہیں۔