سعودی عرب کا قومی دن اورپاک سعودیہ تعلقات کا تاریخی جائزہ
سعودی عرب میں آج 23 ستمبر کو مملکت کا قومی دن بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ یہ دن شاہ عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے سترہ جمادی الاولی 1351 ہجری کو جاری اُس شاہی فرمان کی یاد میں منایا جاتا ہے جس میں مملکت کے بانی نے جدید سعودی ریاست کے تمام حصّوں کو ''مملکتِ سعودی عرب'' کے نام کے تحت یکجا اور متحد کر دیا تھا۔
قومی دن کے موقع پر سعودی عرب کے مختلف شہروں اور علاقوں میں ثقافتی، سماجی اور کھیلوں سے متعلق سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شاہراہوں اور گھروں کو سبز رنگ کے علاوہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی تصاویر سے سجایا گیا ہے۔
مرحوم فرماں روا شاہ عبدالعزیز آل سعود نے 21 جمادی الاولی 1351 ہجری مطابق 23 ستمبر 1932 بروز جمعرات مملکت سعودی عرب کے قیام کے اعلان کا دن ملک کا قومی دن قرار دیا تھا۔سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے مملکت سعودی عرب کے9 8 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر اپنے پیغام میں باور کرایا ہے کہ ''سعودی عرب علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا فعّال اور مؤثر کردار بخوبی ادا کر رہا ہے۔ مملکت عالمی امن اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے پر بھی کاربند ہے اور تمام انسانیت کی بھلائی کے واسطے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے''۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ دفاع، معیشت اور توانائی سمیت متعدد شعبوں میں دونوں ملک ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی اور مضبوط تعلقات کی بنیاد 1951 میں ہونے والا معاہدہ بنا۔ سعودی عرب نے 1965 اور1971 کی جنگوں کے علاوہ سابق سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت کے وقت بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے ایک سال تک پاکستان کو 50 ہزار بیرل یومیہ تیل ادھار پر فراہم کیا۔ 2005 کے تباہ کن زلزلے،2010 اور 2011 کے سیلاب کیوقت بھی پاکستان کی بھرپورمالی مدد کی۔ براہ راست مالی امداد کے علاوہ سعودی عرب نے پاکستان میں انفراسٹرکچر، صحت اور تعلیم سمیت فلاحی شعبوں میں کئی منصوبے مکمل کئے۔
اس وقت 26 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کمانے کے لئے موجود ہیں۔ انہوں نے 18-2017 میں 4.8 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھجوایا جو کہ دنیا بھرسے آنے والی مجموعی ترسیلات زر کا 29 فیصد بنتا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں سعودی حکومت نے پاکستانی اسٹیٹ بینک میں 3 ارب ڈالر جمع کرائے، تین سال تک ادھار تیل فراہم کرنے کا معاہدہ کیا جس کی مدت میں توسیع بھی ہو سکتی ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے مابین 1982 کے دفاعی تربیت کے معاہدے کے تحت اس وقت پاک فوج کے 1680 افسر و جوان سعودی عرب میں تعینات ہیں جبکہ مزید 1460 افسران و جوانوں کی سعودی عرب روانگی کی حتمی منظوری کا انتظار ہے۔پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں اس وقت سعودی فورسز کے 77 افسران زیر تربیت ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں 20ارب ڈالر کے معاہدے ہونے کے بعد دونوں برادر اسلامی ممالک ایک نئے تاریخی اقتصادی شراکت داری کے دور میں داخل ہو رہے ہیں جس سے ان کے باہمی تعلقات میں نہ صرف مزید استحکام آئے گا بلکہ باہمی احترام پر مبنی طویل المدت سرمایہ کاری سے مشترکہ خوش حالی و ترقی‘ علاقائی استحکام، نئے تزویراتی اور سماجی تعلقات کی راہ بھی ہموار ہو گی۔ یہ سعودی عرب سے پاکستان کی لازوال محبت کا مظہر ہے۔ خطے کی صورتحال، دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت مختلف امورپر دونوں ملکوں کی قیادت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان برادر اور دوست ملک ہیں جو مشکل حالات میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں، سعودی عرب میں سیاحوں کی موجودہ تعداد 80 ملین ہے جس کو سعودی عرب 100 ملین تک توسیع دینا چاہتا ہے، پاکستان اور سعودی عرب باہمی ترقی اور استحکام کے لیے کام کریں گے بلکہ پاکستان اور سعودی عرب مل کر علاقائی اور خطے کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ ولی عہد بننے کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے پہلے دورہ پاکستان کے دوران جن خیالات اور تعاون کا اظہار کیا وہ قابل ستائش ہے ۔ سعودی عرب نے ہمارے برے معاشی حالات میں مدد کی جو قابل تحسین ہے، پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تعلقات نئی بلندیوں تک پہنچیں، پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری اورشراکت داری سے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوںگے۔
سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے دوستی کے رشتوں کے علاوہ سب سے بڑا رشتہ دین کا ہے ۔سعودی عرب میں ہمارا قبلہ بیت اللہ اور ہمارے پیارے آقا محمد عربیﷺ کا روضہ مبارک ہے۔ یہ وہ فضیلت ہے جو سعودی عرب کو دیگر اسلامی ممالک سے منفرد اور ممتاز بناتی ہے، قیام پاکستان کے فوراً بعد سعودی عرب نے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کو یہ پیغام بجھوایا کہ اسلام کے نام پر بننے والی مملکت اور سعودی عریبیہ جسد واحد کی طرح ہے اوردونوں ممالک کے مفادات مشترک اور دکھ سکھ سانجھے ہیں۔ سعودی عرب کے جتنے بھی فرمانروا آئے انہوں نے پاکستان کے ساتھ اپنی خصوصی محبت اور دلچسپی کا اظہار کیا اور پھر اس کا عملی ثبوت بھی فراہم کیا۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جب عنان حکومت سنبھالی تو انہوں نے پاکستان کو اپنی پہلی ترجیح میں رکھا اور کہا کہ پاکستان ان کا دوسرا گھر ہے، عالمی سطح پر ہونے والے تمام معاہدوں میں پاکستان کو باخبر رکھا اور تقریباً تمام معاملات میں پاکستان کو اپنے ساتھ چلانے اور شریک رکھنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی بے پناہ مالی مدد کی اور پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد دی، پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت منگوا کر کثیر زر مبادلہ کی صورت میں پاکستان کو امداد فراہم کی۔
سعودی عرب اور پاکستان کے مابین پائی جانے والی لازوال دوستی کے بدلے میں پاکستان سعودی افواج کی تربیت کا فریضہ بھی سرانجام دیتا ہے۔ شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلم ممالک کی ایک مشترکہ اتحادی فوج بنانے کا جب فیصلہ کیا تو اس کا پہلا سربراہ بھی انہوں نے پاکستان سے جنرل راحیل شریف کی صورت میں لیا ظاہر ہے یہ بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ امت مسلمہ کی مشترکہ فوج کی قیادت پاکستان کے حصہ میں آئی۔ سعودی عرب میں پاکستان کے مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے جس سے پاکستانی معیشت کو مضبوط ہونے میں کافی مدد ملی ہے۔سعودی عرب کی معیشت دنیا کی 20 اعلیٰ معیشتوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کے ثابت شدہ پٹرولیم ذخائر کے تقریباً 16 فیصد رکھنے اور سب سے زیادہ پٹرولیم برآمد کرنے والا سعودی عرب آج دنیا کا سب سیبڑا پٹرولیم ایکسپورٹر ہے۔ سعودی عرب کے شاہ سعودبن عبدالعز یز نے بحیثیت ولی عہدکراچی کادورہ کیاتھا، وہ تیل کی دولت سے مالامال ملک کے پہلے بادشاہ تھے جنھوں نے1954میں پاکستان کا سرکاری دورہ کیاتھا۔ لہذا پاکستان کے بانیوں اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کا تعلق اپریل 1940سے شروع ہوگیاتھا۔ 1954میں شاہ سعود نے کراچی میں ایک ہائوسنگ سکیم کا سنگِ بنیاد رکھا، اس ہائوسنگ پراجیکٹ کو ان کے نام پر سعودآبادنام دیاگیا۔ شاہ فیصل بن عبدالعزیز جنھوں نے 1962میں اس وقت سعودی عرب میں غلامی کو ختم کیا جب وہ اپنے بھائی شاہ سعود کی حکومت کے دوران ولی عہد کیطورپرخدمات سرانجام دے رہے تھے، وہ پہلی بار اپریل 1966میں پاکستان کے دورے پرآئے۔ شاہ فیصل کے اس تاریخی دور ہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔ 1965میں پاک بھارت جنگ کے تین سال بعد 1968 میں شاہ سلطان بن عبدالعزیزجو اس وقت کے سعودی وزیر برائے دفاع اور ایوی ایشن تھے، نے پاکستان کا دورہ کیا اور دوطرفہ دفاعی تعاون پروٹوکول طے کیا۔
پاکستان کا اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے قیام میں کلیدی کردار رہا ہے۔ اس تنظیم کے قیام کی تجویز شاہ فیصل کو رابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم سے دی گئی تھی۔ شاہ فیصل نے (او آئی سی) کی تنظیم کے لیے اسلامی ممالک کا دورہ ساٹھ کے عشرے میں کیا تھا۔ شاہ فیصل پاکستان آئے تو اُن کا سرکاری اور عوامی سطح پر جو فقید المثال والہانہ استقبال ہوا تھا اس کی کوئی دوسری مثال پاکستان میں چین کے وزیراعظم چو ابن لائی کے استقبال کے علاوہ نہیں ملتی۔ تاہم پاکستان نے سرکاری اور عوامی سطح پر شاہ سعود بن عبدالعزیز سے لیکر ہر سعودی حکمراں اور ولی عہد کا شاندار خیر مقدم کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ پاکستان کو ساٹھ کے عشرے میں بیت اللہ کا غلاف تیار کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ (سعودی عرب نے اس وقت تک اپنے ملک میں غلاف کعبہ تیار کرنے کا کارخانہ قائم نہیں کیا تھا)۔ اس وقت تک مصر سے غلاف کعبہ تیار کرایا جاتا تھا۔ مصر کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی انتہا کو پہنچی تو مصر میں غلاف کعبہ کی تیاری ناممکن ہوگئی تھی جس کے بعد رابطہ عالم اسلامی کی تجویز پر شاہ فیصل نے غلاف کعبہ تیار کرانے کے لیے حکومت پاکستان سے رجوع کیا تھا۔
جب شاہ فیصل نے 1973میں مغربی دنیاکو تیل کی سپلائی روک دی تھی تب اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجربادشاہ کے پاس آئے اور کہا: اگر سعودی عرب نے امریکا کا بائیکاٹ ختم نہ کیا تو امریکا آئے گا اور تیل کے تمام کنوئوں پر بمباری کردیگا، شاہ فیصل نے جواب دیا:تم لوگ تیل کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تم جانتے ہوکہ ہم صحراکے لوگ ہیں اور ہمارے آبائواجداد کھجوروں اوردودھ پرگزارہ کرتے تھے ، لہذا ہم واپس جائیں گیاوردوبارہ اسی طرح رہیں گے۔ شاہ فیصل نے مغربی دنیا کی جانب سے اسرائیلی کی حمایت کرنے پر ورلڈ مارکیٹ سے تیل واپس لے لیا تھا۔ پاکستان کی شاہ فیصل سے خاص محبت تھی۔ اپنے ملک کے تیسرے بڑے شہر (لائل پور)کا نام بھی سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے نام کردیا آج یہ شہر پاک دوستی کی ایک مثال کے طورپر فیصل آباد کہلاتا ہے ۔اسی طرح کراچی میں پاکستان ائیرفورس کی دوبڑی ائیربیسزمیں سے ایک پی اے ایف بیس کو فیصل کے نام پر منسوب کیا گیا۔1974ء میں شاہ فیصل کی اسلامی سربراہی میں شرکت کے بعد کراچی کی معروف شاہراہ کو آپ کے نام پر شاہراہ فیصل کا نام دیا گیا۔
وہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز کے تیسرے بیٹے تھے۔ اسی طرح اکتوبر2003میں شاہ عبداللہ نے بطور ولی عہد پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ شاہ عبداللہ کے عہد بادشاہت میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ جب پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں تو یہ شاہ عبداللہ ہی تھے جنہوں نے پاکستان کی ہر طرح مدد کی تھی۔
پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات کی نوعیت کس سطح پر استوار رہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی حکومت نے پاکستان کے سوا کسی دوسرے اسلامی ملک کے سربراہ کو سرکاری دورہ پر مکہ مدینہ میں گھر کا تحفہ پیش نہیں کیا۔ 1953 میں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد سعودی عرب کے سرکاری دورہ پر گئے تو شاہ سعود بن عبدالعزیز نے مدینہ منورہ میں باب جبرئیل کے بالکل سامنے ایک بڑا گھر تحفہ میں دیا تھا جس کی کنجی ملک غلام محمد نے پاکستانی سفارت خانہ کے سپرد کرکے اسے پاکستانی حکومت کا سرکاری ویسٹ ہائوس قائم کرنے کے لیے دے دی تھی جس کا نام پاکستان ہائوس رکھا گیا تھا۔ حرم کی توسیع کی وجہ سے پاکستان ہائوس کی وہ عمارت تو اب وہاں سے ختم ہوگئی ہے۔ مگر اس کے بدلے میں سعودی حکومت نے جو جگہ دی ہے وہاں اس سے بڑا پاکستان ہا ئوس قائم ہے۔ سعودی عرب میں پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے پاس سعودی عرب کی طرف سے عطیہ میں دی گئی کوئی عمارت نہیں ہے۔
آج سعودی عرب کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کیلئے دشمن تخریبی کارروائیاں کررہا ہے ۔ ان حالات میں ہم سعودی قیادت کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم سعودی عرب کے خلاف ہونے والی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ۔ پاکستانی قوم سرزمین حرمین شریفین کی حفاظت کیلئے ہر قسم کی قربانی دے گی۔سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر تمام سعودی بھائیوں، مملکت سعودی عرب کی قیادت بالخصوص خادم الحرمین الشریفین اور ولی عہد کی عزت اور عظمت کو ہدیہ تبرک پیش کرتے ہیں۔
پاکستان میں متعین سعودی عرب کے سفیرنواف سعید المالکی پاکستان میں ملٹری اتاشی کے طور پر کام کر چکے ہیں اس لئے انہیں یہاں کے حالات سے مکمل آگاہی حاصل ہے۔ سفارتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک سنجیدہ طبع اور نفیس شخصیت کے طور پر ہے۔ جن لوگوں کو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک سفیر اور سعودی عرب جیسے اسلامی ملک کے نمائندہ میں ہونی چاہئیں۔اس لئے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پاک سعودی تعلقات تعلقات مزید مضبوط ہونگے۔ بہرحال ہم سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے خادم الحرمین الشریفین اور پوری سعودی قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سعودی عرب کو اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے محفوظ ومامون رکھے اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔