’’رازق سے بے نیاز رزق ‘‘
ایک اخبار نویس نے لاہور کے پوش علاقہ میں ایک گھر بنایا۔نئے گھر کی خوشی میں اس نے ایک ضیافت کا اہتمام کیا۔ وہاں صاحب خانہ ہر مہمان کو ایک کہانی پوری تفصیل سے سنا رہے تھے ۔ ’’میں یہ گھر کیسے بنانے میں کامیاب ہوا؟‘‘۔ اس کی کہانی وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے کے شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں کے کوٹہ سے دیئے ہوئے دس مرلہ کے رہائشی پلاٹ سے شروع ہوتی تھی ۔ کہانی ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قرضے تک پہنچتی ۔ ان دنوں شاید بھٹو ابھی واقعی زندہ تھے یا پھر انہیں دوسرے جہاں روانہ ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی ۔ اسلئے اس زمانہ میں مکان بنانے کیلئے غریبوں کو رعایتی نرخوں پر قرضہ کی سہولت میسر تھی۔ پھر اس گھر کی تکمیل ، فروخت ، اک نئی بستی میں ایک کنال کے پلاٹ کی خرید ، گھریلو بچتیں ،بیوی کے زیورات ، دوست احباب کی نوازشوں کے گرد گھومتی کہانی ، اس مکان کی تکمیل تک پہنچ جاتی جہاں لوگ دعوت اڑا رہے تھے۔ یہ ان بھلے وقتوں کی داستان ہے جب ہماری زندگی میں اک ضمیر بھی ہوا کرتا تھا۔ یہ اس ضمیر کی خلش تھی جو اس اخبار نویس کو اتنی لمبی کہانی سنانے پر مجبور کرتی۔ وہیں موجود اک درویش کو ’’میں نے یہ گھر کیسے بنایا ‘‘والی کہانی کی تکرار اچھی نہ لگی ۔ وہ کچھ بدمزہ ہو کر کہنے لگے ۔ صاحب! کیا بار بار عادی ملزموں کی طرح بیان صفائی دیئے جا رہے ہو۔ ایک کنال کا گھر ، سواری کیلئے چھوٹی موٹی گاڑی اور ہر ماہ گھر بار کے اخراجات کیلئے کچھ رقم کا بندوبست جیسے تیسے بھی ہو جائے ٹھیک ہے ‘‘۔ پھر وہ بھوک کی شدت میں شرعی ڈھیل ، گنجائش اور رعایت بتانے لگے ۔ انہوں نے اپنی بات یوں مکمل کی ۔ ’’بھوک اور بے گھری بہت ظالم ہوتی ہے ۔ اب قبر کی جگہ کیلئے بھی گھر کی ملکیت کے کاغذات دکھانا پڑتے ہیں۔ قبر گھر کی طرح کرایہ پر نہیں ملتی۔ قبر صرف مالک مکان کوملتی ہے ۔ کسی کرایہ دار کونہیں ۔ بیچارے کرایہ دار کی عمر بھر کی خجل خواری مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی ۔ سرکار! اس کا مردہ بھی خراب ہوتا رہتاہے ۔ اک قبرستان سے دوسرے قبرستان، پھر کہیں جا کر اسے منت ترلوں اور تگڑی سفارش سے ’’امان‘‘ ملتی ہے‘‘۔ ہمارے مسائل بہت عجیب و غریب ہیں۔ ادھر زرخیز زمینوں پر گھر اور کالونیاں بن رہی ہیں۔ یہ پیداواری سرگرمیاں نہیں ہیں کہ جن سے معیشت کا پہیہ درست سمت میں چلے ۔ دنیا کے کسی ملک میں ایسی بے ہنگم سرگرمیاں ممکن نہیں کہ زرعی زمینوں کے پلاٹ بنا کر بیکار چھوڑ دیئے جائیں۔ اب نہ ہی وہاں ہل چلتا ہے اور نہ ہی کسی گھر کی تعمیر کیلئے بنیادیں کھودی جاتی ہیں۔ رہائشی پلاٹوں کا ایک جنس کے طور پر کوئی تصور حضور کی ریاست مدینہ میں بالکل نہیں تھا۔ جس فہرست میں ان چیزوں کا ذکر ہے جن پر زکوٰۃ فرض ہے ، اس میں یہ رہائشی پلاٹ شامل نہیں۔ اب کوئی عالم دین رہائشی پلاٹوں کی ذخیرہ اندوزی اور ان پر زکوٰۃ کے بارے میں نہیں بول رہا۔ ان علمائے کرام میں سے بیشتر خود اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ پاکستان میں جوصاحب حیثیت شخص کچھ نہیں کر رہا وہ پلاٹوں کا کاروبار ضرور کر رہا ہے ۔ خرید سے اگلے روز پلاٹ ڈیڑھ گنی قیمت میں بک جائے تو کہا جاتا ہے کہ آسمان سے وافررزق آیا ہے ۔ زندگی کی معیشت کا ایک اہم سوال ہے، کیا رزق عطاء کیا جاتا ہے یا بندہ اپنا رزق خود کماتا ہے ؟رزق ، تقدیر ، بندہ انہیں کہاں سمجھ پایا ہے ۔ایمان بالغیب کا یہی مطلب ہے کہ بہت سی چیزیں ہماری عقل سے ماورا ہیں۔ میر تقی میرؔ نے اسے یوں لکھا ہے ۔
یہ ہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو یہی ایک عمر میں ہوا معلوم
عام طور پر بندہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ اپنی محنت ، مشقت اور تگ و دو سے کما رہا ہے ۔ وہ رزق کو اپنے دونوں ہاتھوں کی کمائی سمجھے ہوئے ہے ۔لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ ایک چور ، ڈاکو اور لٹیرا اپنی لوٹ مار کی کمائی کو اللہ کی عطا کیسے جان سکتا ہے ؟ ٹھگ صرف شہر بنارس سے خاص نہیں۔ یہ ہر عہد اور ہر علاقہ سے انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں۔ راہ چلتے نوسر باز، وزیر آبادکے ڈبل شاہ اور ان دنوں ٹویوٹا موٹرز گوجرانوالہ کے مالکان جیسے سب لوگ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔صرف ان کے روپ بدلتے رہتے ہیں۔ برسوں پہلے گوجرانوالہ کے ایک نوجوان نے بے پناہ لالچ کا جھانسہ دیکر شہریوں سے بہت سی رقم بٹور لی ۔ وہ اربوں نہیں کروڑوں کا زمانہ تھا۔ وہ خود تو یہ دولت اکٹھی کر کے بیرون ملک بھاگ گیا ۔ وہیں ابھی تک مقیم ہے ۔ متاثرین بیچارے تھک ہار کر بیٹھ گئے ۔ جیسا کہ عام طور پر ایسے معاملات میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے بہن بھائی اس کی سمیٹی ہوئی دولت سے یہاں ’’ریاست مدینہ ‘‘میں عیش کر رہے ہیں۔ اس رقم سے اس زمانہ میں خریدی گئی کروڑوں کی جائیداد اب اربوں میں پہنچ گئی ہے ۔ ان’’ کامیاب‘‘لوگوں کا کوئی شخص سماجی بائیکاٹ نہیں کرتا۔ ان کے لوگوں سے روابط بدستور رہتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ معاشرے میں اہم تر ہوجاتے ہیں۔ ہمارے کرپٹ معاشرے میں ان سے نفرت کی بجائے ان پر رشک کیاجاتا ہے ۔ اک روز ان کے ہاں بیٹھا ایک نیک طبع آدمی انہیں تلقین کرنے لگا کہ وہ اپنی اللہ کی عطا کردہ دولت میں سے کچھ اللہ کے بندوں پر بھی خرچ کرتے رہا کریں۔ اس موقع پر موجود کالم نگار یہ کہے بغیر نہ رہ سکا ۔ پہلے ان سے یہ پوچھ بھی لیں کہ یہ اپنی دولت کو اللہ کی عطا سمجھتے بھی ہیں یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارا کمال اپنی محنت اور چالاکی کا سمجھے بیٹھے ہوں؟