پاک بحریہ نے دوار کا‘ کا قلعہ کیسے تباہ کیا ؟
کراچی کیلئے 6ستمبر 1965ء کی صبح بھی ماضی کی طرح پرسکون تھی ۔پاک بحریہ کے افسر اور جوان ابھی ناشتہ کرہی رہے تھے کہ تمام بحری جہازوں میںایکشن الارم بجنے لگا۔ اس کے فورا بعد ہوائی حملے سے خبردار کرنیوالا الارم بھی سنائی دیا۔ چندمنٹوںکے بعد ہی پاک بحریہ کا پہلا جہاز کھلے سمندر کی جانب روانہ ہوگیا جبکہ صبح نو بجے کراچی کی بندرگاہ ‘ تمام لڑاکا یونٹوں سے خالی ہوچکی تھی ‘تمام جہاز وںنے کراچی بندرگا ہ کی حفاظت کیلئے آس پاس پٹرولنگ شروع کردی تھی ۔ کموڈور شیخ محمد انور اس بیڑے کی کمان کررہے تھے ۔بابر نامی جہاز اس بحری بیڑے کا قافلہ سالار تھا ۔اگلے دن بھارتی فضائیہ نے کراچی پر حملہ کیا تو پاک بحریہ کے کمانڈر چیف وائس ایڈمرل افضل الرحمن خان نے پاک بحریہ کو دشمن کے خلاف کارروائی کا حکم دیدیا۔7ستمبر کی دوپہر ہمارا بحری بیڑا کراچی سے 50 میل دور تھا کہ اسے دوارکا کی بندرگار اور فوجی تنصیبات پر حملے کا حکم ملا۔یہ بھارتی بندرگاہ کراچی سے دو سو میل دور جنوب کاٹھیاوار میں تھی ‘جس کا قدیم نام سومنات کا مندر بھی تھا۔تمام بحری جہازوںکے کمانڈروںکو ٹارگٹ کے بارے میںاطلاع کردی گئی تھی ۔ خیبر نامی جہاز کے کپتان‘ کیپٹن اختر حنیف نے مختلف خطرات کی نشاندھی کرتے ہوئے کہا‘ اللہ نے چاہا تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔ہمارے مقابلے میں دشمن کی نیوی اور بھارتی فضائیہ بھی آسکتی ہے لیکن ہمیں ہر جانب سے چوکنا رہنا ہوگا ۔بحری بیڑے کے کمانڈرز نے اس مہم کو آپریشن دوارکا کا نام دیا کیونکہ یہاں بحری فوج کے ٹھکانے ‘ ساحلی قلعہ راڈر اسٹیشن اور جنگی طیاروں کے ہوائی اڈے بھی تھے۔یہیں سے بھارتی طیارے پرواز کرکے کراچی پر حملہ آور ہورہے تھے۔ رات 11 بجے ہمارا بحری بیڑا ‘ دوارکا سے 35میل دور پہنچ چکا تھا۔ عالمگیر نامی ہمارے جہاز کے ریڈار پر پہلی مرتبہ بھارتی طیاروں کی روشنی دیکھی گئی۔اس کے باوجود سپاہی سے افسر تک کو یقین تھا کہ اللہ کی تائید و حمایت ہمیں یقین حاصل ہوگی۔ 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی شب بارہ بج کر تیرہ منٹ پر تمام جہاز کاٹھیاوار کے ساحل سے ذرا دور ‘ دوارکا پر گولہ باری کرنے کیلئے صحیح پوزیشنوں پر پہنچ چکے تھے۔ 12 بج کر 26 منٹ پر بھارتی فضائیہ کاایک طیارہ سب سے اگلے جہاز عالمگیر پر حملے کی غرض سے آیا‘ عالمگیر جہازکے توپچیوں نے اسے مار گرایا۔ طیارے میں آگ لگ گئی اور وہ قلابازیاں کھاتا ہوا سمندر میں غرق ہوگیا۔ہمارے جہازوں کے ریڈار پر اب دوارکا کی بندرگاہ نمودار ہورہی تھی گولہ باری شروع کرنے سے پہلے گھڑیوں کو ملالیاگیا ۔جہازوں کو ممکن حد تک قلعہ کے قریب پہنچنا تھا تاکہ ایک فیصد بھی نشانہ خطا نہ جائے۔ چاند پوری آب و تاب سے چمک رہاتھا۔جبکہ دوارکا کی بندرگاہ تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی دور بینوں کے ذریعے چند دیوہیکل چمنیوں اور دیگر تنصیبات کے بالائی حصے دکھائی دے رہے تھے۔پھر توپوںکے دھانے کھول دیئے گئے اورنشانہ پر گولہ باری شروع کردی گئی ۔بندرگاہ کی تمام تنصیبات پر گولے گرتے اور پھٹتے دکھائی دے رہے تھے۔ سب سے پہلے گولے بندرگاہ کے اسلحہ خانے پر گرے تو زور دار دھماکوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔فوجی تنصیبات کی تباہی کے بعد وہاں موجود فوجیوںاور سویلین اپنی جانیں بچانے کیلئے بھاگ رہے تھے ۔جب پاک بحریہ کے جہاز دوارکا کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے اس وقت پاک بحریہ کی واحد آبدوز "غازی"ممبئی کی بندرگاہ کے سامنے سمندر کے نیچے مستعدکھڑی ہوئی تھی ۔آبدوز کے کمانڈرکرامت رحمن نیاز ی کی نظر بھارت کے بڑے بڑے جنگی بحری جہازوں پر تھی جن کے نام میسور اور رنجیت تھے ۔ ’’غازی‘‘ آبدوز کے کمانڈر کوامید تھی کہ بھارتی بحریہ کے جنگی جہاز دوارکا کو بچانے کیلئے ضرورنکلیں گے اور ہماری آبدوز انہیں بندرگاہ سے نکلتے ہی دبوچ لے گی لیکن بھارتی بحریہ کے جہاز وں کو بندرگاہ سے باہر نکلنے کی جرات ہی نہ ہوئی ۔حالانکہ اس وقت چار فریگیٹ جہاز موجود ممبئی بندرگاہ میں تھے جبکہ آبدوز شکن جہازوںکی بھی کمی نہ تھی ۔دوارکا کے دفاع کے متعلق بھارتیوں کو بہت غرور تھا کیونکہ یہ بھارت کا ایسا فوجی اڈا تھا جہاں ہوائی حملوں کی قبل از وقت خبر داری کیلئے دور بین اور طاقتور راڈر بھی نصب تھا۔اس اہم اور خطرناک فوجی اڈے کی حفاظت کیلئے کاٹھیا واڑ کے ساحل پر بے شمار توپیں نصب تھیںاور فضائی تحفظ کیلئے جام نگر اور گردو نواح کے چھوٹے بڑے تین ہوائی اڈوں پر بھارتی فضائیہ کے بمبار طیاروں کے سکوارڈن موجود تھے ۔ان تمام دفاعی انتظامات کے علاوہ بھارتی بحریہ کا پورا بیڑا موجود تھا ۔جس میں سب سے زیادہ خطرناک طیارہ بردار جہاز ’’کرانت‘‘بھی شامل تھا جس کے عرشے پر 80لڑاکا بمبار طیارے کھڑے تھے ۔ بھارتی بحریہ دوارکا کی تباہی کے وقت بزدلوں کی طرح چھپی بیٹھی رہی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی بحری فضائی جنگ میںپاک بحریہ کے کسی جہاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور تمام جہاز دوارکا کی بندرگاہ اور قلعے کو راکھ کا ڈھیر بنا کر بحفاظت واپس کراچی پہنچ گئے ۔ جنگ بندی کے بعد صدر پاکستان محمد ایوب خان نے آبدوز "غازی" کے کمانڈر بہادراور دلیر کرامت رحمن نیازی اور لیفٹیننٹ اختر تسنیم کو ستارہ جرات دیا۔غلام نبی کو تمغہ خدمت اور عملے کے دیگر افراد کو امتیازی اسناد دی گئیں ۔ بزدلی اور ناکامی کا تمغہ 29ستمبر کو بھارتی بحریہ کے کمانڈر انچیف کے گلے میں سجا جن کو نااہلی اور بزدلی دکھانے پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔