امریکہ، کشمیر اور میرے وزیر اعظم
امریکہ کا نام جب بھی لیا جاتا ہے پاکستانیوں کے چہروں پر ناخوشگوار تاثرات آجاتے ہیں ۔آج سب جانتے ہیں کہ امریکہ پاکستان تعلقات ہمیشہ ون وے ٹریفک کی طرح چلتے رہے ہیں ۔کہا جائے کہ امریکہ نے ہر دور میں پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ امریکہ کو جب جب اس خطے میںکچھ مقاصد درپیش ہوئے انہوں نے پاکستانی حکمرانوںکو دلیل سے ,تڑی سے یا ڈالروں سے اپنا ہمنوا بنا لیا ۔پاک امریکہ تعلقات بارے لکھنا چاہیں تو کئی کتب لکھی جاسکتی ہیں ۔لیکن صرف ایک نقطہ ہی سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ کی ہر حکومت نے ہر دور میں اپنے ملکی مفاد کو سامنے رکھ کے اور ہمارے حکمرانوں نے ہر دور میں ذاتی مفادات کو سامنے رکھ کے معاملات طے کیے ہیں۔ویسے تو کشمیر میں ایک صدی سے ایک آگ و خون کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔تقسیم کے بعد بھارت کے سبھی حکمرانوں نے طاقت سے کشمیریوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی اب تک کی کامیاب کوششیں کی ہیں ۔بھارت نے دنیا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کشمیریوں کی آواز دبائے رکھنے کیلئے کشمیر میں طاقت کا بے پناہ استعمال کیا ہے ۔ بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج اور پولیس نے کشمیر میں پہلے بھی کرفیو کی سی صورتحال بنا رکھی تھی ۔پہلے بھی کشمیریوں کو بنا کسی وجہ کے گرفتار کرنے انہیں حبس بے جا میں رکھنے کا قانون چل رہا تھا مگر اب تو بھارتی حکومت نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے دنیا سے کیے پچھلے سارے معاہدوں پر مٹی ڈال دی ہے۔ اور آج بھارت میں موجود متشدد سوچ کی حامل ہندد قوم پرست حکومت نے کشمیرمیں اعلانیہ کرفیو لگا رکھا ہے ۔اب حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں ہر جمعے اپنی سڑکیں بند کر رہے ہیں,احتجاج میں حاضری بڑھانے کیلئے سرکاری ملازمین کو پابند کیا جارہا ہے اور اب شنید ہے کہ خواتین بھی اس با برکت احتجاج کا حصہ بنیں گی۔دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ کوئی حکومت اپنے ہی ملک میں عوام کو احتجاج کے نام پر سڑکوں پہ لائے ۔حکومتیں تو مسائل کو حل کرنے کیلئے فیصلے کرتی ہیں۔ شعور اجاگر کرتی ہیں اور بات چیت سے مسائل کے حل کی طرف سفر شروع کرتی ہیں ۔اگر احتجاج ہی کرنے سے کشمیریوں کا بھلا ہوسکتا ہے تو ضرور احتجاج کرنا چاہیے مگر اس کیلئے زیادہ بہتر ہوتا کہ پاکستان بھارت سے احتجاج میں ہر قسم کے تعلقات ختم کردیتا ,اس شرط پر کہ جب تک بھارتی فوجیں کشمیریوں پہ ظلم نہیں روکتیں ہم بھارت سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے ۔احتجاج کا طریقہ یہ بھی اچھا ہوتا کہ ہم دنیا بھر میں پاکستانیوں اور ہمنوا غیر ملکیوں کو ساتھ ملا کے کشمیریوں کے حق کی بات کرتے ۔احتجاج کا ایک طریقہ تو یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میرے ملک میں بھارتی ثقافتی یلغار کو بزور قوت روک دیا جاتا ۔احتجاج کرنے کیلئے ہم واہگہ بارڈر پر دیوار بنادیتے جس سے دنیا کو سمجھ آتا کہ بھارت پاک حالات کس سمت چل رہے ہیں ۔لیکن لگتا ہے ہماری حکومت احتجاج ایسے کر رہی ہے جیسے سامنے کوئی دشت گرد ملک نہیں بلکہ اپنی سیاسی مخالف حکومت ہے ۔پچھلے دنوں ہمارے وزیر اعظم مسلم امہ کی بے حسی کا رونا روتے نظر آئے ہیں ۔امہ کی بات بڑی خوش کن تو ہو سکتی ہے مگر حقیت یہ ہے کہ مسلم امہ کا آج کوئی وجود نہیں ہے ۔یہ دور اقتصادی ,معاشی اور بحرانوں کا دور ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی جنگ ہو پاکستانی نفع نقصان کا کوئی پہلو اس میں ضرور نکل آتا ہے ۔ہمیں ہمارے معاشی مفادات کبھی کسی کیساتھ کھڑا کر دیتے ہیں اور کبھی ہماری کوئی کمزوری ہمیں کسی کا اتحادی بنا دیتی ہے۔ ہم خیالوں میں رہنے والی قوم ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا سے سیانے ہیں ۔ہم دنیا کو چکر دینے کی کوشش میں خود چکروں میں آجاتے ہیں ۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی کسی تھنک ٹینک کے تابع نہیں چلی ۔ آج بھارت اعلانیہ نہ صرف کشمیر یوں کی بلکہ سارے بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔اور ہم صرف کمزور سے احتجاج کر رہے ہیں ۔ حکومتی سطح پر اپنا ملک بند کرنے سے ,اپنی مارکیٹیں بند کرنے سے ہم بھارت کا نقصا ن تو نہیں کر سکتے ہاں اپنا ضرور کر رہے ہیں ۔پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستان نے کہا تھا میرے پاکستانیوں مجھے ایک بار اقوام متحدہ اسمبلی میں خطاب کر لینے دو ,پھر اگلہ لائحہ عمل اپنایا جائے۔ایک بات ماننے والی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے نریندر مودی کو ہٹلر اور انسانی قاتل کے خطابات سے مسلسل نوازنا شروع کیا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے وزیر اعظم یو این میں نریندر موذی کو کن القابات سے نوازتے ہیں اور جواب میں بھارتی حکومت کیا کہتی ہے ۔حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں اقوام متحدہ سے زیادہ امید تو نہیں ہے ,جتنا ظلم اقوام متحدہ کو استعمال کرتے ہوئے مسلم ملکوں پر ہواہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اقوام متحدہ اصل میں بنائی ہی طاقت وروں کے تحفظ کیلئے ہی تھی ۔امریکہ نے جب جب مسلم ملکوں پہ بارود کی بارش کرنا ہوتی ہے وہ اقوام متحدہ سے ایک دن میں قرار داد منظور کرواکے اس ملک پہ چڑھ دوڑتا ہے ۔لیکن جب بات مسلمانوں کے حق کی آئے تو ستر سال بعد بھی کشمیریوں کیلئے کچھ نہیں کیا جاتا۔ کاش میرے وزیر اعظم سیاست اور اپنی کرشماتی شخصیت سے کشمیریوں کیلئے کچھ کرسکیں ۔اور اس نعرے سے نکلیں کہ ہم کشمیریوں کیساتھ کھڑے ہیں ۔