قانونی سقم اور نظر ثانی کا معاملہ
عدالتی فیصلوں پر غیر جانبدارانہ تبصرہ تسلیم شدہ بین الاقوامی تصور ہے جو دنیا بھر کے قانونی ،آئینی اور عدالتی حلقوں میں مصدقہ حیثیت کا حامل ہے جس کا مقصد کسی بھی معاملے یا فیصلے کو Sacrosanct،قرار دینے کا عمل آزادی اظہاررائے کو کمزور نہ کرے یا پھر رکاوٹ نہ بنے ۔ہمارے ہاں بعض چیزیں اس قدر عام ہوگئی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئین اور قانون کی متعلقہ شقیں Reduntہوگیئں مثلاً نظر ثانی کے معاملے میں عدالتیں متنازعہ اور کمزور فیصلوں کو نظر ثانی کرنے میں عمومی Reluetance،کا مظاہرہ کرتی ہیں جس سے حقوق و فرائض کا تعین کے حتمی تصور کو نقصا ن پہنچتا ہے ۔اسلام میں تو یہاں تک فقہاء کی رائے ہے کہ جب بھی قاضی یا جج کو اپنا فیصلے میں سقم نظر آئے فوراً نظر ثانی کرنا لازم ہو جاتا ہے مگر پاکستان میں عدالتی فیصلوں کی ایک تاریخ ہے جس میں سب آئینی متنازعہ فیصلے جیسے جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت جس کو تقربیاً 60سال لگے اور وکلا تحریک کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ نظریہ ضرورت دفن ہوا۔سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی اندرونی خواہش کے باوجود کہ ایسا کیوں ہو۔پچھلے چند سالوں میں عدالتی فیصلے خاصی تنقید کا شکار رہے۔دراصل پاکستان میں مالی اور انتظامی کرپشن کینسر کی طرح زندگی اور ریاست کے ہر شعبے میں گھر کر چکی ہے ۔معاملہ سرے محل،سوئس اکاونٹس یا بینک اکاونٹس آصف زرداری یا شرجیل میمن وغیرہ کا ہوا ربوں روپے کے الزامات اور معاملات ہیں اس طرح نواز شریف وغیرہ کا ایوین فیلڈ اپارئمنٹس یا دیگر جائیدادوں جس میں حدیبیہ ملز کا معاملہ ہو سارا خاندان ہی شامل الزامات ہے کون نہیں جانتا کہ ہمارے جج صاحبان نے ہر دور میںکہیں نہ کہیں اپنے فیصلوں میں جھول دکھایا ۔مولوی تمیز الدین سے ڈوسو اور دیگر کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ میں بے نظیر وغیرہ کے مقدمات اور مارشل لاؤں میں ضیا الحق سے جنرل مشرف تک کو جسٹس ارشاد حسن خان اور ڈوگر نے جو کچھ کیا اب وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔سجاد علی شاہ چیف جسٹس پاکستان اور سعیدالزماں صدیقی اور ان کے بینچ کا معاملہ ہماری عدالتی تاریخ کا ایک اور متنازعہ باب ہے ججوں کی اعلیٰ عدالتوں میں تقرری ہمیشہ متنازعہ عمل رہا ہے موجودہ جوڈیشل فورم کے بننے پر خیال تھا کہ تقرریاں زیادہ شفاف اور میرٹ پر ہونگی مگر پسند نا پسند کا سلسلہ بڑی حد تک اب بھی جاری ہے ۔سابقہ ادوار میں اعلیٰ انتظامیہ،عدلیہ اور کچھ سیاسی گھرانوں سے اعلیٰ عدالتوں میں جج بھرتی ہوئے ۔بہرحال سفارش اورتعلق اور اب بھی اپنا رنگ دکھارہی ہے جو نظام عدل کے لیے زہر قاتل ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہمارے ہاں سر عبدالرشید جسٹس کارنیلس اورایم آر کیانی سمیت سر خیل جج ہوئے اور آج بھی ہیں مگر سیاسی ۔انتظامی اور قانونی تنازعات اور کمزور ریاستی نظام کی وجہ سے نظام عدل بھی منفی اثرات سے بچ نہ سکا ۔ڈسٹرکٹ جیوڈیشلری اب بھی ہر قسم کی بے قاعدگیوں اور کمزوریوں کا شکار ہے ۔کرپشن نے یہاں بھی بہتر مالی اور دیگر مراعات کے باوجود انصاف کے حصول کو مشکل اور خاصا مہنگا بنایا ہوا ہے ۔اس سلسلہ میں ہائی کورٹ کی سپرویزن کے موثر عمل میں بہتری آسکتی ہے مگر آسان نہیں ؟نتیجہ یہ کہ عام شہری اپنی مشکلات کے حل کے لیے اعلیٰ عدالتوں کے پاس آتا ہے چیف جسٹس افضل ظلہ کے زمانے میں بھٹہ مزدورں اور دیگر بنیادی حقوق کے حوالہ سے مقدمہ دائر ہوئے اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا مگر چوہدری افتخار کے زمانے میں آرٹیکل 184(3)،کے اندر سے سو موٹونے ایک نئی وسعت اختیار کی کچھ متنازعہ فیصلے ہوئے مگر اس کی وجہ سے حکومتی اداروں کی عام شہریوں کے معاملات اور مسائل کو حل کرنے میں فرائض سے کوتاہی بنیادی وجہ تھی اور موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی بہت سے معاملات میں سوموٹوپر عمل درآمد کر رہے ہیں میرے خیال میں 184(3)،کا آئین میں ادخال پاکستان کے کمزور اور کرپٹ انتظامی ڈھانچے میں جہاں سول اور مارشل لاء حکومتوں نے اداروں کو اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور پولیس ،محکمہ مال عدلیہ ،سول بیوروکریسی اس حال میں عام شہریوں کے لیے عضو معطل بن گئی شاید آئین بنانے والوںنے اسی تناظر میں 184(3)آئین کا حصہ بنایا اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 190-189-188-187،سمیت آرٹیکل 7،اور آرٹیکل 8،سے 39بڑی وضاحت سے شامل قانون کیے ۔مقصد شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور Enforcement،تھا ۔اس حوالہ سے بہت سے درست اور سود مند فیصلے ہوئے مگر یہ شعبہ بھی ایک توازن کا متقاضی ہے خبروں کی ترسیل میں تیزی نے ایک ہنگامی اور ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے اس میں بھی ایک توازن کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں Regulatory Authority،کمزور نظر آتی ہے ۔ اس کی ایک وجہ سیاسی اور انتظامی مداخلت بھی ہے ۔دنیا پھر میں ہر شعبہ قانون کے ساتھ ساتھ اندرونی Self Restraint،کے Mechanism،پربھی عمل پیرا ہے ہمارے ہاں اس پر توجہ اور عمل کی شدید ضرورت ہے ۔عدلیہ ،میڈیا اور انتظامی میں بھی۔عدالتوں کے اندر اور باہر Comments،اور Counter-Cammants،اور Observations،کا سلسلہ بھی کچھ سالوں سے خاصی اہمیت اور عملیت اختیار کر گیا ہے اس سے کئی بار صورت حال ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنی اور عدلیہ اور میڈیا کی طرف سے وضاحتیں جاری کرنا پڑیں یہ سلسلہ شب و روز خاصی متوازن فکر و عمل کا تقاضا کرتا ہے ہر شعبہ ریاست کی طرف سے ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ آجکل مرجع خلائق بنی ہوئی ہے ہر روز کوئی نہ کوئی مقدمہ احتساب عدالت سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا رخ کرتا ہے پانامہ کسی کے تناظر میں Avenfield،میں سزا کے خلاف نواز شریف وغیرہ کی اپیلیں زیر سماعت ہیں ان میں جہاں متفرق معاملات پرلے دے ہوئی وہاں سزاؤں کی معطلی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ اور میا ں گل اورنگزیب کے بینچ نے سماعت کی Observations کا ایک وسیع و عریض سلسلہ قوم کے سامنے آیا ۔میاں نواز شریف وغیرہ کے خلاف سپریم کورٹ کے نااہلی کے فیصلے کے بعد جس طرح یہ مقدمہ احتساب عدالت پہنچا تاریخ کا ایک حصہ ہے کوئی شک نہیں کہ نیب میں بھی سیاست زدہ لوگوں کی کمی نہیں اور یہ بات چیرمین نیب نے بھی تسلیم کی ہے اسی طرح ایف آئی اے کا معاملہ بھی قدرے اب بہتر ہوا ۔رہا پولیس کا تو وہ عوام کے لیے ایک ڈراؤنا خواب دیکھتے میں عمران حکومت اس مسئلے سے کیسے نمٹتی ہے ویسے تو مسائل ہی مسائل ہیں ؟بہرحال احتساب عدالت کے نواز شریف وغیرہ کے فیصلے پر عدالتی Observations،اور Coments،سے یوں محسوس ہوا کہ نواز شریف وغیرہ آصف زرداری وغیرہ سب بے گناہ ہیں اور شاید پوری قوم فریب زدہ ہے۔ قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جہاں تک احتساب آرڈننیس کی دفعہ 9،اور دیگر دفعات کا تعلق ہے اس حوالہ سے حسن، حسین اور مریم بی بی اور نواز شریف سپریم کورٹ سے احتساب عدالت تک اپنی جائیداد کے حوالہ سے منی ٹریل نہ دے سکے اورجب کہ لندن جائیداد کے متعلق ملکیت سے انکارنہ تھا بچوں کے بیانات اور نواز شریف کے اپنے بیانات کی بنا پر ۔اگر جائزہ لیا جائے تو دفعہ 9،کے جار کے اندر کرپشن خود بخود ثابت ہوتی ہے اس حوالہ سے دفعہ 342ضابطہ فوجداری کے بیانات ملزمان بھی خاصے اہمیت کے حامل ہیں بہرحال احتساب عدالتوں کے سزا کے فیصلوں اور اعلیٰ عدالتوں کی تاریخ میں سز ا معطلی ایک Unusual،معاملہ رہا ہے اور ہے اس مقدمہ میں سزا کی معطلی کے فیصلے پر کئی آرا قائم کی جاسکتی ہیں ۔مگر یہ فیصلہ شہادتوں اورواقعات کے پیش نظر Reviewکے لیے خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے دفعہ9،احتساب آرڈیننس کی تشریح سابقہ نظائر کے حوالہ سے بھی اس کی Criminal Jurisprudenceپاکستان میں کرپشن اور منی لانڈرنگ اور بین الاقوامی حلقوں میں دھشت گردی کے پس منظر میں خاصا دباؤ ہے اورTAFTA، گرئے لسٹ اور بلیک لسٹ کا مسئلہ بھی حکومت پاکستان کو درپیش ہے ہمارے عدالتی فیصلوں کا جامع اور مدلل ہونا اس سلسلے میں مددگار ہو سکتا ہے ۔کیا یہ درست نہیں کہ ہم نے لندن ،سوٹیز رلینڈدیگر جگہوں پر جو کچھ کیا منی لانڈرنگ اور لوٹی ہوئی دولت کے حوالہ سے جس کا نتیجہ کئی مشکلات کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔ابھی کچھ دن پہلے اسحاق ڈار کو انٹر پول نے ان کو پاکستان کے حوالہ کرنے سے انکار کیا کہ مقدمہ جس میں گرفتاری چاہیے سیاسی ہے کیا ان کا ،نواز شریف یا زرداری اور ان کے بہت سے حواریوں کے مقدمات سیاسی ہیں جواب تو نفی میں ہی ہے ۔لہذا ان مقدمات میں جہاں NAB-FIA،اور دیگر اداروں کا تعلق ہے ۔ان کی فنی مہارت ۔دیانت داری اورCommitmentکے ساتھ مقدمات کی تفتیش اور پیروی میں اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا اور ہماری عدالتوں کو بھی عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں کے ذریعے نظام کو استحکام مہیا کرنا ہوگا تاکہ یہ فیصلے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ابہام اور غیر یقینی پن اور عدم اعتماد کا سبب نہ بنیں ۔سزا معطلی کے مقدمہ کو نیب نے سپریم کورٹ میں لیجانے کا عندیہ دیا ہے مگر معطلی یا ضمانت کا مسئلہ مخصوص اور بنیادی سقم کے تناظر میں ہی دیکھا جائے گا دیکھتے ہیں قانون کیا رخ اختیار کرتا ہے ؟