ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
تقوی، خدا ترسی اور پرہیزگاری جو کسی بھی اسلامی ریاست کی روح ہوتی ہے اور جس کا بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا اس کو چھوڑ کر یزیدی حکمرانوں نے قیصر وکسری کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے - عدل کی جگہ ظلم و جور کا غلبہ ہوتاگیا، پرہیزگاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہو گیا - خدا سے خود ڈرنے کی بجائے حاکم لوگ بندگان خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے- اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے- اسلامی دستور کی بنیاد اس اصول پر قائم تھی کہ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کر دیں-یعنی کہ بیعت اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو - بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو - لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہوں- جب تک کسی شخص کو بیعت حاصل نہ ہو وہ برسر اقتدار نہ آئے اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو وہ اقتدار سے الگ ہو جائے- خلفائے راشدینؓ میں سے ہر ایک اسی قاعدے کے مطابق برسراقتدار آیا تھا- لیکن یزید کی ولی عہدی نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا - اس سے خاندانوں کی موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے سے آج تک پھر مسلمانوں کو انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا- اب لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسراقتدار آنے لگے - اب بیعت سے اقتدار حااصل ہونے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی-
دستور اسلامی کا دوسرا اہم ترین قاعدہ یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے کیا جائے جن کے علم ، تقوی اور اصابت رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو- خلفائے راشدینؓ کے عہد میںقوم کے موزوں ترین افراد کو شوری کے رکن کے طور پر پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ چنا جاتا تھا جن سے حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھی جاتی تھی- لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شوری کا یہ طریقہ بدل گیااب بادشاہ مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے- اسلامی ریاست کے صحیح راستہ پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں، وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں- امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا- اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے- مجلس شوری کے ممبروں ہی کو نہیں ، قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پرس کرنے کی مکمل آزادی تھی، اور یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا جس کا احترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے - اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسولؐ کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت سازگار رکھنا فرائض خلافت کا ایک اہم جز تھا- لیکن بادشاہی دور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دئیے گئے اور منہ بند کر دیے گئے اور قاعدہ یہ ہو گیا کہ زبان کھولو تو تعریف یں کھولو ، ورنہ چپ رہو اور اگر حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہو جائو- وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ پالیسی مسلمانوں کو پست ہمت ، بزدل اور مصلحت پرست بناتی گئی- خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی وا راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اسلامی ریاست کا چوتھا اصول یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جوابدہ ہے جسکے شدید احساس سے خلفائے راشدینؓ پر دن کا حین اور رات کا آرام حرام ہو گیا تھا- وہ ہر روز پانچ مرتبہ نماز کی جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے- ان سے شوری (پارلیمنٹ) میں نوٹس دیکر ہی سوال نہیں کیا جا سکتا تھا- انکے سیکرٹیریٹ، گورنمنٹ ہائوس(کچے گھر) کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا تھا- وہ عوام کی مرضی سے برسر اقتدار آئے تھے اور عوام کی مرضی انہیں ہٹا کر دوسرا خلیفہ ہر وقت لا سکتی تھی- لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جوابدہ حکومت کا تصور ختم ہو گیا خدا کے سامنے جواب دہی کے خیال کے آثار کم ہی نظر آتے ہیںاور خلق کے سامنے جوابدہی تو عنقا ہو گئی۔
بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت یہ اسلامی دستور کا پانچواں اصول تھا- جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے، اور جس میں سے کوئی چیز حق کے سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے- خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد و خرچ پر حساب دینے کاذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کا پورا حق ہے - خلفائے راشدینؓ نے اس اصول کو بھی کمال درجہ دیانت اور حق شناسی کے ساتھ برت کر دکھایا- انکے خزانے میں جو کچھ آتا اور جو جو کچھ خرچ ہوتا وہ اسلامی قانون کے مطابق جائز راستوں پر ہوتا- مگر جب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلانوں کا نہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا ، ہر جائز و ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور ہر جائز و ناجائز راستے میں صرف ہوتی تھی کوئی اس کا حساب نہیں پوچھ سکتا تھا۔
اسلامی دستور کا چھٹا اصول تھا کہ ملک میں قانون( خدا اور رسولؐ کے قانون) کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ہر کوئی قانون کے تابع ہے- ایک عام آدمی سے لے کر سربراہ مملکت تک سب کے لیے ایک ہی قانون ہے - انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے- لیکن بادشاہت آتے ہی حکمران اور ان کے حواری قانون سے بالا تر ہو گئے - عدالتوں پر دبائو ڈالے جانے لگے اور انصاف پسند قاضیوں اور خدا ترس فقہاء کی سختی آ گئی جو عدالت کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کوڑے کھانے اور قید ہو جانے کو زیادہ قابل ترجیح سمجھنے لگے- تا کہ وہ ظلم و جور کے آلئہ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنیں۔
ابتدائی اسلامی ریاست میں مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات کے اصول کو پوری قوت کے قائم کیا گیا تھا- مسلمانوں کے درمیان نسل ، وطن ، زبان وغیرہ کا کوئی امتیاز نہ تھا - قبیلے اور خاندان اور حسب و نسب کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی- ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت و اخلاق اور اہلیت و صلاحیت ، اور خدمات کے لحاظ سے تھی- لیکن خلافت کی جکہ جب بادشاہی نظام آیا تو شاہی خاندان اور ان کے حامی خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہو گیا - ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہو گئے - یہ وہ تغیرات تھے جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے اور یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطئہ آغاز تھی اور بادشاہی نظام میں درج بالا خرابیاں تھوڑے ہی عرصہ میں نمایاں ہونے لگیںاور ان ہی ممکنہ خرابیوں کا ادراک کرتے ہوئے حضرت امام حسینؓ نے فیصلہ کیا کہ یزیدی قوتوں کو ہر قیمت پر روکنا ہے اور اسی عظیم مقصد کے لیے انہوں نے مکہ سے صحابہ ؓ کے منع کرنے کے باوجود کوفہ کا سفر کیا- مسلم بن عقیل ؓ کو حالات کاجائزہ لینے کے لیے کوفہ بھیجا جنہیں دھوکہ سے شہید کر دیا گیا اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو بھی تیغ ستم سے شہید کر دیا گیا-
امام عالی مقامؓ کو انکی شہادت اور کوفیوں کی بد عہدی کی خبردوران سفر ً نلعیہ ً کے مقام پر ملی - جب کوفہ دو منزل رہ گیا تو یہاں حر بن زید ریاحی ایک ہزار مسلح افواج کے ساتھ آپ ؓ کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا گیا - ظہر کے وقت آپ ؓ نے اذان کا حکم دیا ، نماز کے بعد آپؓ دستہ حر کے سامنے تشریف لے گئے اور فرمایا، ً اے لوگو، میں خود یہاں نہیں آیا بلکہ میرے پاس تمہارے خطوط اور قاصد پہنچے کہ ہمارا کوئی امام نہیں آپ آئیں ممکن ہے کہ آپ کے ذریعے اللہ ہمیں راہ ہدایت پر لگا دے - اگر تم لوگ اپنے عہد اور بیعت پر قائم ہو تو میں تمہارے شہر میں داخل ہوں ورنہ یہیں سے واپس چلا جائوں ً مگر حر اپنی بات پر اڑا رہااور امام عالی مقامؓ کو کوفہ کی راہ سے ہٹ کر کربلا میں نزول فرمانا پڑا-آپؓ نے اس مقام کا نا م دریافت کی تو معلوم ہوا کہ اس مقام کو کربلا کہتے ہی- - ابھی خیمہ زن ہی ہوئے تھے کہ آپؓ کی خدمت میں ابن زیاد کا مکتوب پہنچاجس میں یزید کی بیعت طلب کی گئی تھی- آپؓ نے قاصد کو جواب دیا میرے پاس اس خط کا کوئی جواب نہیںاس جواب سے ابن زیاد کا غصہ بڑھ گیا اور اس نے مزید فوج روانہ کر دی اور عمرو بن سعد حکومت کے لالچ میں آمادہ جنگ تھا۔ دوسری طرف اہل بیعت کے 72نفوس جن میں خواتین، بچے ، بیمار سبھی شامل ہیں جن کے پاس نہ سامان حرب ہے نہ ارادہ جنگ ہے ان کے سامنے بائیس ہزار کی مسلح فوج مقابلے کے لیے موجود ہے - 7محرم کو فرات کا بے حساب پانی خاندان رسالتؐ پر بند کر دیا-بھوک و پیاس سے سب ناتواں ہو گئے ۔ مگر امامؓ کے پائے استقلام میں لغزش نہ آئی ، آپ ؓ نے اپنا گھر لٹانا اور خون بہانا منظور کر لیا مگر اسلام کی عظمت میں فرق نہ آنے دیا - دس محرم کا قیامت خیز دن طلوع ہوا جمعہ کا دن تھا ، امام عالی مقامؓ نے اہل بیعت اور تمام رفقاء کے ساتھ نماز فجر ادا کی اور خیمہ میں تشریف لائے اور جنگ کا نقارہ بجا دیا گیا۔ آپؓ نے اس موقع پر ایک خطبہ بھی ارشاد فرمایا تا کہ حجت تمام رہے - پھر جنگ کا آغاز ہو گیا - علی المرتضیؓ کے خاندان کے بہادروں کربلا کی تشنہ لب زمین کو دشمنوں کے خون سے لالہ زار کر دیا اس طرح خاندان امام حسینؓ کے نوجوان اپنی بہادری کے جوہر دکھا دکھا کر امامؓ پر قربان ہوتے چلے گئے - روایت ہے جب امام حسینؓ شہید کئے گئے تو آسمان سے خون برسا اوراس روز بیت المقدس سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے تازہ خون پایا گیا - شہادت کے روز اندھیرا ہو گیا اور تین روز مکمل اندھیرا رہا -امام حسینؓ نے حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے کس طرح فسق و فجور کا مقابلہ کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے عزم و ہمت کی بینظیر مثال قائم کر دی- یزید چالیس سال جیااور اسکا بیٹا جو تین براعظموں کا حکمران تھا اس نے چالیس دن حکمرانی کی اور اکتالیسویں دیں خاندان کے لوگوں کو اکٹھا کیااورممبر پر بیٹھ کر کہا کہ خاندان والو سنو میرا باپ ظالم تھااور حکمرانی کے اس تخت کے نیچے اہل بیعت کا خون ہے لہذا میں اس تخت پر لعنت بھیجتا ہوں اور تم جس کو چاہے حکمران بنا لو ، اور وہ ممبر سے اتر کر چلا گیا-