مکرمی! بیگم کلثوم نواز کی وفات پر جس طرح سیاسی لیڈران کرام نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا‘ وہ قابل ستائش ہے۔ اس قسم کا مظاہرہ عموماً اس وقت ہی دیکھنے میں آتا ہے جب اسمبلی میں ممبران کی مراعات کا بل پیش ہوتا ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھی روایت ہے۔ خدا کرے کہ یہ لوگ ملک اور جمہوریت کے خلاف سازشوں میں بھی اسی طرح اتحاد کا مظاہرہ کیا کریں وگرنہ دور آمریت میں تو اکثر کا جھکائو تو اقتدار کی طرف ہی ہوتا ہے جیسے کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں کچھ سیاسی لیڈران کا جھکائو بھارتی مفادات کی طرف ہے۔ خدا بھلا کرے جناب چیف جسٹس صاحب کی کاوشوں کا جنہوں نے کابالاغ ڈیم کی تعمیر کی خوشخبری بھی سنا دی ہے۔ اور یہ ایک آنے والی نسلوں کیلئے بھی خوشخبری ہے۔ بات تو رہی تھی مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی۔ مرحومہ کے متعلق ہر آدمی نے اچھے الفاظ میں ہی ذکر کیا ہے‘ لیکن ان لوگوں پر افسوس بھی ہے۔ بہت سلجھے ہوئے دانشور لوگ بھی زبان سے اس قسم کی گفتگو سے گریز نہیں کرتے کہ جس سے انسان کی دلاآزاری ہوتی ہو حالانکہ ہمارے مذہب اسلام میں بھی اس قسم کی گفتگو کی ممانعت ہے جس سے کسی فریق کی دلآزاری ہوتی ہو‘ لیکن شاید یہاں الٹا ہی رواج ہے۔ ایک سیاستدان جس کی خصوصیت ہی یہی ہے کہ منہ سے آگ کے شعلے نکالتا ہے اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو جیسی لیڈر پر بھی طنز کے نشتر برساتا رہا اور مخالفین کی پکڑی اچھالنے میں اپنا ثانی نہیںرکھتا اور تقریباً ہر دور میں وزیر بن جاتا ہے۔ دانشور‘ سیاستدان‘ قانون دان جس نے مرحومہ کی بیماری کو ڈرامہ قرار دیا تھا‘ معذرت کرکے بھی ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ وگرنہ کچھ سیاستدنان تو اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں کہ کوا سفید ہی ہے اور وہ شاید یہ بھی بیان دیدیتے ہیں کہ یہ تو کسی اور کو دفنایا گیا ہے۔ یہ معذرت ایک بڑا پن ہے۔ کاش کہ یہ چند دن پہلے ہوتی تو شاید آپ آج وطن عزیز کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوتے۔ اگر نہ بھی ہوتے تو عزت و وقار سے شکست سے دوچار ہوتے۔ (محمد یوسف جنجوعہ وزیرآباد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024