نواز شریف اور مریم نواز کی رہائی
بالآخر سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف ، انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتساب عدالت کی طرف سے ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزا کے خلاف عدالتی جنگ کا پہلا ’’ رائونڈ‘‘ جیت لیاہے ۔ اگرچہ یہ عارضی ریلیف ہے لیکن عدالتی فیصلے سے میاں نواز شریف کی اخلاقی فتح ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں اور کارکنوں کا ’’مورال‘‘ بلند ہوا ہے۔ عدالتی فیصلے کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر نے جس جرات و استقامت سے جیل میں 68روز گذارے ہیں اس کی کم کم مثال ملتی ہے مریم نواز نے جیل کو اپنے والد کی کمزوری بننے نہیں دیا بلکہ دونوں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے کا باعث بنے رہے۔ نواز شریف نے پرویز مشرف کی جیل بھی کاٹی ہے اور موجودہ حکمرانوں کی جیل بھی دیکھ لی ہے ۔نواز شریف کے موقف میں ذرا بھر کمزوری نہیں آئی لیکن انہیں اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی علالت اور رحلت کے ایام میں جو اذیت اٹھانی پڑی اسے انہوں نے ’’مرد آہن ‘‘ کی طرح برداشت تو کر لیا لیکن اس سانحہ نے انکی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں فوری طور رہا کرنے کا حکم دیا ہے ۔اسلام آبا دہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کی جب کہ قومی احتساب بیورو اس کیس کو طوالت دینے کی ہر ممکن کو شش کرتا رہا ۔اسے نظر آرہاتھا کہ وہ یہ کیس ہار گیا ہے لہذا مختلف حیلوں بہانوں سے میاں نواز شریف کو زیادہ سے زیادہ عرصہ جیل میں رکھنے کیلئے کبھی قومی احتساب بیورو کا سپیشل پبلک پراسیکیوٹر علیل ہو جاتا کبھی جسٹس اطہر من اللہ پر یہ اعتراض اٹھا دیا جاتا کہ ان کا نواز شریف سے تعلق رہا ہے جس کے باعث انہیں کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہیے لیکن عدالت نے اعتراض کو مسترد کر دیا میاں نواز شریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز جو 13جولائی 2018ء سے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید تھے وہ 68روز اڈیالہ جیل میں رہے جب کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر72روز تک اڈیالہ جیل میں ’’سرکاری ‘‘ مہمان رہے۔ اس ’’مرد میدان ‘‘نے جیل میں بی کلاس لینے سے انکارکر دیا ۔20ستمبر2018 ء کو عدالت کی وارننگ کے بعد پراسیکیوٹر نیب اکرم قریشی نے اپنے دلائل مکمل کئے جب کہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مختصر جوابی دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر حکومتی جماعت کے ایک عہدیدار نے کچھ ان الفاظ میں اپنی شکست کا اعتراف کیا کہ ’’5کروڑ روپے فیس لینے والے وکیل کا قومی احتساب بیوروکا وکیل کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے؟
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی کہا کہ نیب کے ریفرنس میں خامیوں کا جائزہ لیا جائیگا۔ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا ہے ’’کہ احتساب عدالت کا فیصلہ اور سزائیں معطل کی جاتی ہیں جس کی وجوہات بعد میں تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی‘‘۔عدالت کی جانب سے نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں کے فیصلے تک سزائیں معطل کی گئی ہیں جب کہ عدالت نے تینوں شخصیات کو 5،5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان مسلم لیگی رہنمائوں کی گرفتاریوں پر ضمانت دینے کیلئے ہر وقت اراضی کی ملکیت کی دستاویز اپنے پاس رکھتے ہیں لیکن اس کی ضرورت پیش نہ آئی۔ چوہدری جمیل آف گوجرخان بھی اسلام آباد میں ملکیتی اراضی کی رجسٹریاں لئے پھر رہے تھے لیکن مسلم لیگی رہنما سخی محمد اور انکے صاحبزادوں کی اراضی کی رجسٹریاں ہی ضمانت کے لئے کافی تھیں۔ چوہدری تنویر خان روبکار لے کر فوری طور اڈیالہ جیل پہنچے لیکن میاں نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی رہائی کی ’’روبکار‘‘ کی تصدیق کے عمل میںتین چار گھنٹے لگ گئے۔ میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے کیلئے سردار مہتاب احمد خان ،مسلم لیگ(ن) کے چیف وہپ مرتضی جاوید عباسی اور ڈاکٹر عباد اللہ جیل سپرنڈنٹ کے دفتر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے لیکن وہاں مسلم لیگی رہنما محمد حنیف عباسی جو اڈیالہ جیل میں عمر قید کاٹ رہے ہیں بھی اپنے لیڈر میاں نواز شریف سے الوداعی ملاقات کے سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں آگئے اس موقع پر موبائل ٹیلی فون سے اتاری گئی تصاویر وائرل ہونے سے حکومت کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ساجد گوندل ایک ذمہ دار جیلر ہیں وہ سیاسی قیدیوں کے ساتھ انکے رتبہ کو دیکھ کر سلوک کرنے والے افسر ہیں لیکن انتقام کی بھٹی میں جلنے والے سیاسی عناصر کو میاں نواز شریف پر تو بس نہیں چل رہا تھااس لئے جیل سپرنڈنٹ حنیف عباسی کو معمول کاریلیف دینے پر زیر عتاب آگیا ہے۔ اب اس کیخلاف انکوائری ہو رہی ہے اور قیدی حنیف عباسی کو اٹک جیل منتقل کردیا گیا ہے حالانکہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو اپنے سیاسی مخالفین کو’’ فکس اپ‘‘ کرنے کی پالیسی ترک کرکے ’’جیو اور جینے دو ‘‘کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دوران سماعت ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ’’ نیب لندن فلیٹس سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا لیکن پراسیکیوٹر نیب کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ فلیٹس نواز شریف کے ہیں‘‘۔جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر نیب سے کہا کہ ’’ آپ کہتے ہیں نواز شریف نے مریم کے نام فلیٹس بنائے؟‘‘۔ اکرم قریشی نے کہا کہ’’ جی، نواز شریف فلیٹس کے اصل مالک تھے‘‘۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت بتادیں، ہم کیسے فرض کرلیں ۔جب آپکی تفتیش کے بعد بھی نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نہیں بن پارہا، نواز شریف تو کہیں بھی نظر نہیں آرہے، آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے تو ہم فرض کیسے کر لیں،، کیا ہم فرض کرلیں کہ بچے چھوٹے ہیں تو مالک والد ہوگا؟۔اکرم قریشی نے کہا کہ’’ بار ثبوت مجرموں پر تھا کہ وہ بتائیں فلیٹس کیسے بنائے، والد کو بچانے کیلئے مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ تیار کی، قانون کہتا ہے کہ جب فلیٹس انکے قبضے میں تھے تو وہ ملکیت بتائیں، جب بچے کم عمر تھے تو فلیٹس کے مالک نواز شریف ہیں‘‘۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کا موقف ہے کہ 1993 میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے، آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں، تو مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا؟ جسٹس گل حسن نے کہا کہ ’’ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے اگر اثاثے چھپائے گئے تو اثاثے بنانے میں سزا کیسے ہوئی ؟ ۔ ایک مرحلے پر سپیشل پراسیکیوٹر نیب عدالت کے سوالات پر زچ ہو گئے تو عدالت سے کہا کہ ’’ آپ سارے سوالات مجھ سے ہی پوچھ رہے ہیں، کچھ سوالات نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے بھی پوچھ لیں‘‘۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ سے یہ سوالات اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے یہ تمام کہانی بنائی ہے ، آپ نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے نواز شریف کا دور سے کوئی تعلق ثابت ہو۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے سے واپسی کے بعد پریس کانفرنس کر ڈالی اگرچہ انکی پریس کانفرنس وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کے بارے میں تھی لیکن انکی پریس کانفرنس کا مرکزی نکتہ اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو باہر جانیں دینگے اور نہ ہی اسحق ڈار ، حسن نواز اور حسین نواز کو باہر رہنے دینگے۔ انکے نام ای سی ایل پر اسی لئے ڈالے گئے ہیں اگر انکے نام ای سی ایل پر موجود نہ ہوتے تو ضمانت پر رہائی کے بعد شام کو لندن چلے جاتے پھر انہیں کون ڈھونڈتا پھرتا‘‘ ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ کوئی ڈیل ہو رہی ہے اور نہ ہی کوئی ڈھیل دی جارہی ہے ، نواز شریف کا جیل میں آنا جانا لگا رہے گا ۔ان کو وہیں بھیجا جائیگا جو ان کا ٹھکانہ ہے جہاں وہ کچھ دن پہلے تھے ‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’ تحریک انصاف کی کسی سے ذاتی لڑائی نہیں۔ لوٹا گیا قومی خزانہ واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ چونکہ نواز شریف کی رہائی ایسے موقع پر ہوئی جب وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ ان سے نواز شریف کی رہائی میں سعودی عرب کی رہائی کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی رہائی میں سعودی عرب کا کوئی کردار ہے نہ سعودی عرب کو نواز شریف سے کوئی ہمدردی نہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان ڈیل پر یقین نہیں رکھتے۔ نواز شریف کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس ختم نہیں ہوا اس کیس میں انکی ضمانت ہوئی ہے ۔ نیب کیس کی پراسیکیوشن میں خامیاں دور کریگا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کے اس امر کے اظہار سے کہ ’’ نواز شریف کا جیل میں آنا جانا لگا رہے گا‘‘ ، اندازہ لگایا جا سکتا ہے حکومت کو نواز شریف کو عدالت کی جانب سے دیا گیا ’’عارضی ریلیف ‘‘بھی قبول نہیں تاہم بار بار جیل یاترا نے نواز شریف ’’کندن ‘‘ بنا دیا ہے۔ اب تو جیل یاترانے انکی صاحبزادی مریم نواز کوبھی’ ’آئرن لیڈی‘‘ بنا دیا ہے جنہیں قیدو بند کی صعوبتوں سے ڈرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی خوفزدہ کرکے کسی ڈیل پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔