جناب وزیراعظم!! قومی ورثے کی حفاظت کیجئے
پاکستان ہم سب کو محض اس لئے پیارا نہیں کہ وہ زمین کا ٹکڑا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ ہم سب کی شناخت ہے اور ہم سب اسے گھر سمجھ کر اس سے پیار کرتے ہیں۔ اگرچہ ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے ووٹ بنک کی ہی نمائندگی کرتی ہے‘ تاہم تمام سیاسی جماعتیں مجموعی طورپر پاکستان کا چہرہ ہیں مگر ہم بحیثیت پاکستانی ابھی تک سیاست سے اوپر نہیں اُٹھ سکے۔ ہماری سیاسی جماعتیں اور لیڈر اہم قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔ ہم آج بھی ووٹوں کیلئے لڑ رہے ہیں بلکہ جو سیاسی جماعت کامیاب ہو جاتی ہے‘ اقتدار میں آکر بھی اس کا رویہ اور سوچ اپوزیشن والا ہی رہتا ہے۔ سیاسی اشرافیہ میں ٹی وی چینلوں پر بریکنگ نیوز کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان پر قوم یا اداروں کا امیج بنانے پر توجہ دینے کی بجائے اپنا امیج بنانے کی دھن سوار ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کاریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ تی رہیں یا مخالفین کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی کو رواج دینے کی شاید ہی کبھی سنجیدہ کوشش کی گئی ہو۔ قانون کی قوت نافذہ کے حصول کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا احترام نہ کرنے والے ملک ترقی نہیں کر سکتے۔ قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی‘ کرپشن کو سازگار فضا فراہم کرتی ہے۔ ماضی میں احتساب کے متنازعہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میںانتقام کا عنصر شامل ہو جاتا رہا۔ دراصل احتساب کو ذاتی مفادات کے حصول کیلئے آلہ کے طورپر استعمال کیا گیا۔
ہم محض ایسے کام کرتے ہیں جن سے میڈیا میں حسب دل خواہ چرچا ہوتا رہے۔ ارباب حکومت اپنی ٹیپ ٹاپ بنانے کی خاطر‘ پبلسٹی کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت تبدیلی کے خوشنما دعوئوں کے ساتھ آتی ہے۔ عوام میں فوری مقبولیت پانے کی خاطر کچھ اقدام بھی کئے جاتے ہیں۔ ماضی گواہ ہے اس قسم کے کام الٹا گلے پڑ جاتے ہیں‘ اس لئے کہ کھڑے ہونے کیلئے ان کے کوئی پیر نہیںہوتے۔ (بالفاط دیگر بنیاد سے محروم)
نئی تشکیل پانے والی حکومت نے اپنے حق کے طورپر سو دن کا ایجنڈا بنایا اور بچت تدابیر اختیار کیںاور مہم چلائی۔ پیسہ جمع کرنے کیلئے مختلف سرکاری عمارات اور اشیاء کی نیلامی بھی شامل ہے۔ سو دن کے ایجنڈے کی طرح نیلامی کا سلسلہ بھی ہم میںسے بہت سوں کی سمجھ سے مکمل باہر ہے۔ معیشت (اکانومی) کو بہتر بنانے کیلئے سب سے پہلے یہ اقدام کئے گئے۔
1۔ ایوان صدر‘ وزیراعظم اور گورنر ہائوسز کا عدم استعمال ۔
2۔ وزیراعظم ہائوس کی پرانی گاڑیوں کا نیلام۔
3۔ بھاری وصولیوںکی خاطرسو بڑے نادہندگان کی گرفتاریاں۔
فنڈز جمع کرنے کی خاطر‘ بچت اور کفایت شعاری کے منصوبے پر عملدرآمد کیلئے ٹاسک فورسز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو ملک بھر کے گورنر ہائوسز کو عوام کیلئے ہوٹلوں میں تبدیلکرنے کا کام کرے گی، تاکہ دوسرے ملکوں سے مدد مانگنے کی بجائے حکومتی ملکیت کی اراضی جس کی حیثیت اس وقت ’’بے کار پڑے اثاثے‘‘ کی سی ہے( حکومتی) آمدنی بڑھانے کا ذریعہ بن سکے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ معمولی کارروائیاں ہماری مطلوبہ، مالی ضروریات کیسے پورا کر سکتی ہیں۔ کیا ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس، گورنر ہائوسز اور دیگر بعض سرکاری عمارتوں پر مشتمل اراضی کے چند ٹکڑے ہمارے بھاری قرضوں کو ہلکی سی جنبش بھی دے سکتے ہیں۔ جواب ہے نہیں! حل یہ نہیں، بلکہ حل بہترین مالی پالیسیاں اختیار کرنے، اور خداداد قدرتی وسائل کے استعمال میں ہے جن کا استعمال تو دور کی بات، ابھی تک انہیں پوری طرح دریافت بھی نہیں کیا جا سکا۔
ملک کو اصلاحات کی ضرورت ہے نہ کہ محض عوامی مقبولیت کی خاطر ایسے کام کئے جائیں ۔ قوم کو پروٹوکول کو محدود کرنے یا گورنر ہائوسز کو پکنک پوائنٹس کی طرح عوام پر کھول دینے ‘ یا میڈیا پر دھوم مچانے والی باتوں سے چنداں دلچسپی نہیں۔ ان کو فقط اس امر سے غرض ہے کہ آسمان سے چھوتی مہنگائی کم کی اور ان کی مالی حالت بہتربنائی جائے ۔ گورننس سنجیدہ معاملہ ہے، یہ نہیں کہ وزراء ‘شام کو (میڈیا پر) حکومت کے دفاع میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے نظر آئیں۔ براہ کرم اصلاحات لائیں، ایسی ٹھوس اور دور رس اصلاحات کہ عوام اپنی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی پاتے ہوئے، آپ کا خود دفاع بن جائیں۔ ضرورت ہے کہ حکومت حقائق کا سامنا کرے اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے ہر سطح پر اصلاحات لائے اور قابل عمل منصوبے بنائے۔عوام میں یہ سوچ بڑھ رہی ہے کہ قومی شناخت کی حامل عمارات سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے اور نہ ان کی موجودہ حیثیت میں کوئی ردو بدل کیا جائے کیونکہ ایسے عاجلانہ فیصلے نہ صرف اب قومی خزانے کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ کسی وقت نیب یا ایف آئی اے کی تحقیقات کا موضوع بھی بن سکتے ہیں مجھے امید ہے کہ ارباب بست و کشاد قومی اثاثوںکے حوالے سے اپنے فرائض سے آگاہ ہوں گے۔ پاکستان میں آج بھی، سکولوں اور کالجوں کے نام پر بنائی گئی لاتعداد عمارتیں خالی پڑی ہیں۔ جیسے کہ انہیں بھوتوں کی درس تدریس کیلئے بنایا گیا تھا حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے اداروں کی حالت بہتر بنائے اور انہیں کام میں لائے۔ شرح خواندگی آٹھ یا دس سرکاری بلڈنگوں کو قبضے میں لینے سے نہیں بلکہ وسیع البنیاد تعلیمی پالیسی اختیار کرنے سے بڑھے گی۔ ویسے بھی 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاق کو صوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں۔
از راہ کرم قومی شناخت کی ان تاریخی علامتوں کو ان کے اصل استعمال میں ہی رہنے دیں انہیں پیسہ جمع کرنے کے نام پر ضائع نہ کریں۔ میری تجویز ہے کہ فنڈز اکٹھے کرنے کیلئے کشمیر ہائی وے کو دوبئی کی شیخ زید روڈ کی طرح کمرشل روڈ بنا دیجئے اس سے دوہزار کمرشل پلاٹ نکل آئیں گے، جنہیں صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ہاتھ نیلام کر دیجئے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو دلکش اور آئینی ضمانت کے حامل منافع بخش پیکیج کے ذریعے سرمایہ کاری پر راغب کیجئے۔ خصوصاً ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں۔ان کی اپنی انتظامیہ اور بنک ہو ۔ یوں اربوں ڈالر جمع ہو جائیں گے اور انہیںیہاں سرمایہ کاری کیلئے کشش بھی پیدا ہوگی۔
جناب وزیراعظم ! ملک بھرکے بڑے بڑے شہروں میں قومی ہیروز کے نام پر شیخ زید کی طرز کی سڑکیں بنائیں اور پھر دیکھیں اس کے ثمرات۔ پلیز! خوف کا نہیں سرمایہ کاری کا ماحول پیدا کریں۔ کیونکہ ’’خوف ٹیکنالوجی‘‘ ماضی کی طرح، ملک سے سرمائے کے فرار کا موجب بنے گی اور لوگ اپنے پیسے کو کینیڈا یا دوبئی وغیرہ یا دوسری کسی ایسی جگہ پر لے جائیں گے ، جہاں اُن کا پیسہ ٹیکس سے محفوظ پڑا رہے۔ کوئی ملک، اپنے ہاں پڑے پاکستانیوں کے پیسے کو واپس کرنے میں ہماری مدد نہیں کرے گا۔ آئیے! اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اپنے تاریخی ورثے کو جو ہماری شناخت ہیں، نیلام کرنے کی بجائے نئی راہیں تلاش کریں ۔ جدید مالی پالیسی یہ ہو ’’بے کار پڑے وسائل کو بروئے کار لانا۔‘‘ یہ قومی معیشت کو درست سمت کی طرف چلانا ہو گا۔
حکومت کو اپنی پہچان کی قومی عمارات ا ور قومی ورثے کی حفاظت کا سوچنا چاہئے۔ مقامی کاروباری برادری اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے مل کر سمارٹ مالیاتی پالیسی اپنانی چاہئے۔
(ترجمہ: حفیظ الرحمن قریشی)