اتوار ‘12؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 23؍ ستمبر 2018ء
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو 30 برس کے ہو گئے
بلاول کو تیسویں سالگرہ مبارک ہو۔ ان کی سالگرہ کی تقریب بھی دھوم دھام سے منائی گئی ہو گی۔ بے شمار مبارکبادیں بھی انہیں ملی ہونگی۔ خاص طور پر زرداری صاحب تو ان کی فرمانبرداری کی وجہ سے ان کے صدقے واری جاتے ہوں گے کہ ابھی تک پارٹی میں انہی کی چلتی ہے۔ باس وہی ہیں لیکن اب بلاول بھی 30 کی اننگ کھیل کر میچور ہو گئے ہیں وہ پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں۔ انہیں اب خود فیصلے کرنے ہوں گے۔ خدا کرے وہ پیپلز پارٹی کو حقیقی معنوں میں ا یک بار پھر بھٹو ا ور بے نظیر والی متحرک انقلابی جماعت بنا دیں۔ غریب عوام پیپلز پارٹی کے سامراجی کردار سے ناخوش ہیں۔ وہ اسے ایک مزدور کسان پارٹی کے روپ میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔اگر بی بی زندہ ہوتی تو وہ انہیں اپنے بعد سیاسی کردار ا دا کرنے کے لئے تیار کرتیں۔ قدم قدم پر بلاول کی رہنمائی کرتیں جس طرح بھٹو مرحوم نے خود بینظیر کی سیاسی تربیت کی تھی۔ یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ جب بی بی یعنی بے نظیر بھٹو اپنے عظیم والد کی پھانسی کے بعد مارشل لاء کیخلاف باہر نکلیں تو لوگوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اب اگر بلاول بھی سب کو چھوڑ کر صرف اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں، اپنے نانا کے سیاسی فلسفے کو لے کر آگے بڑھیں تو ایک بار پھر غریب عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ بھٹو اور بینظیر والی پیپلز پارٹی کب کی ختم ہو چکی اب بلاول کو نئی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنا ہو گی جو غریب مزدور کسان اور ہاریوں کی آواز ہو کیونکہ بلاول کو یہی لوگ اس منزل تک لے جا سکتے ہیں جس کو تاج و تخت کی منزل کہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
ایشیا کپ کرکٹ مقابلے میں پاکستان نے افغانستان کو3وکٹو ں سے ہرا دیا
ایشیا کپ سپر فور مرحلے کا آغاز ہوتے ہی ہمارے ہاتھ پائوں پھولنے لگے تھے کہ خدایا اب خیر کرنا ، لاج رکھنا۔ بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد تو ہماری رہی سہی امیدیں بھی ٹوٹنے لگی تھیں ۔ نجانے کیوں ہمارے شاہین بھارت کے کھلاڑیوں کے سامنے ننھے منے بچے بن جاتے ہیں ۔ وہ کہیں سے بھی کھلاڑی نہیں لگتے بلکہ گلیوں میں کھیلنے والے اناڑی بن جاتے ہیں۔ ہمارے کھلاڑیوں کے بیٹ رنز اگلنا بند کر دیتے ہیں ۔ بائولر تھوڑی بہت کوشش کرکے دم خم دکھاتے ہیں تو فیلڈر کیچ پکڑنا بھول جاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں گویا جان ہی نہیں رہتی۔اب افغانستان کی ٹیم جس طرح دال اور سبزی خوروں کے مقابلے میں گوشت خوروں کی ٹیم بن کر ابھری ہے اس سے تو ہم بھی پریشان تھے ۔ اور پھر 257رنز کا پہاڑ بناکر تو انہوں نے اور بھی ہمارا خون خشک کر دیا تھا۔ مرحلہ بھی اہم ہے سپر فور کا یہاں شکست کا مطلب گھر واپسی کا سفر نکلتا ہے ۔مگر شکر ہے ہمارے کھلاڑیوں کو عوام کے رد عمل کا خیال آگیا یا قدرت خداوندی نے مدد کی کہ سب نے جم کر مقابلہ کیا۔ پورا میچ کسی فلمی کہانی کی طرح ڈرامہ ، تھرل اور ایکشن سے بھرپور تھا۔ شعیب ملک واقعی سینئر کھلاڑی بن گئے اور ان کے چھکوں اور چوکوںنے پانسہ پلٹ دیا اور پاکستان نے اہم معرکہ سر کر لیا۔اب دعا ہے بھارت سے اگلے میچ میں بھی کھلاڑی اسی
دم خم کا مظاہرہ کریں اور پچھلی شکست کا بدلہ لیں …
مودی کے اثاثے بھی دو کروڑ سے زیادہ کے نکلے
حیرت کی بات ہے بظاہر سادھو بننے کی اداکاری کرنے والا یہ بگلہ بھگت بھی اندر سے بڑا مہاجن نکلا۔ نہ کوئی کاروبار نہ بیوپار تو کہاں سے آیا یہ اتنا سرمایہ۔ کم از کم اگر مودی بھی اپنی چھوٹی سی چائے کی وہ دکان ہی چلاتے جہاں وہ کام کرتے تھے تو لوگ کہہ دیتے کہ اس میں ترقی ہوئی یوں کوئی سوال نہ اُٹھاسکتا۔ مگر یہاں تو وہ جس طرح بیوی بچوں کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہیں اسی طرح ان کا کوئی کام کاج بھی نہیں۔ وہ اس سے بھی بری الذمہ ہیں۔یہ سارا دھن دولت کہاں سے آیا ۔ وہ کروڑ پتی کیسے بنے۔ ان کی اپنی پتنی بے چاری پتی کے ہوتے ہوئے ودھوا جیسی زندگی بسر کر رہی ہے اور یہ مورکھ عیش کر رہا ہے۔ پیسے جوڑ رہا ہے۔ آخر یہ دھن دولت کس کام آئے گی۔ بچے تو ہیں نہیں کم از کم اور کچھ نہیں تو اپنی پتنی کا ہی خیال کرتا اسے ساتھ رکھتا تاکہ وہ بھی عمر کے اس آخری حصے میں مودی کی طرح کچھ بہار دیکھتی۔ وہ بے چاری تو ساری زندگی شوہر کی راہ دیکھتی رہی ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود جب ہم بھارتی وزیراعظم کاموازنہ اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے کرتے ہیںتو ہمیں خود اپنے سے شرم آنے لگتی ہے۔ کہاں ہمارے اربوں پتی حکمران کہاں یہ بھارت کا گنگو تیلی۔ اس کی آبادی اربوں میں اثاثے کروڑوں میں ہمارے حکمران کھرب پتی ا ور ہماری آبادی کروڑوں میں ہے۔ بس اسی فرق سے پتہ چلتا ہے کہ کون قومی رہنما ہے اور کون صرف حکمران کاش ہمارے حکمران بھی اربوں سے اتر کر کروڑوں پر آجائیں تو انہیں بعد ازاں عدالتوں کی پیشیوں سے پناہ مل جائے گی۔
٭٭٭٭٭
حکومت 4 بے کار ہیلی کاپٹر دے کر نیا خریدے، ایک شخص کی مشروط پیشکش
آگسٹا ہیلی کاپٹرز کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والا یہ شخص بھی بڑا کائیاں ہے۔ وہ بھی سودا دیکھ بھال ہی کر رہا ہے۔ اس کی یہ پیشکش بڑی اہم ہے کہ وہ وزیراعظم ہائوس کے چاروں بے کار ہیلی کاپٹر جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر لینے کو تیار ہے مگر شرط یہ ہے کہ حکومت اس کے بدلے میں اس سے ایک مکمل طور پر فٹ آگسٹا ہیلی کاپٹر خرید لے۔ اب سودے بازی کے ا صولوں کے مطابق یہ بات کوئی بری نہیں ہے حکمران بھی تو 20 فیصدمخبر کو ادا کرنے کی باتیں کھلم کھلا کرتے ہیں جو کسی بھی خفیہ رقم کا سراغ لگا کر بتائے گا۔ اسی طرح کالادھن سفید کرانے والوں کو بھی رعایت دیتی ہے اورپلی بارگینگ کرنے والے تو مزے میں رہتے ہیں جو اربوں روپے ڈکار جاتے ہیں اور چند کروڑ دے کر اپنی شکنجے میں پھنسی گردن چھڑا لیتے ہیں۔ اب حکومتی اہلکاروں کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔ خریدار کہتا ہے کہ حکومت اس سے آگسٹا ہیلی کاپٹر خریدے اور چاروں ناکارہ ہیلی کاپٹروں کی قیمت اس سودے کی رقم سے کاٹ کر باقی جو بچے اسے ادا کرے۔ سرکاری اہلکار شاید خوفزدہ ہیں کہ کہیں یہ کوئی ممنوعہ ہیلی کاپٹر نہ ہو اور و ہ ناجائز سودے کے الزام میں دھر لئے جائیں۔ بہتر یہی ہے کہ چند قابل اعتماد سرکاری نمائندے جو اپنا کمیشن بنانے کے چکروں سے پاک ہوں وہ اس سودے کا جائزہ لیں ۔ پہلے آگسٹا ہیلی کاپٹروں کا حسب نسب چیک کر لیں کہ ان کی کارکردگی کیسی ہے۔ اگر یہ ملک کے حق میں ہے تو حامی بھر لیں۔ اگر ملکی مفاد کے خلاف ہے تو انکار کر دیں۔
٭٭٭٭٭