مکرمی! معاشرے میں ایک عجیب رجحان پرورش پا رہا ہے کہ جس چیز یا انجام سے ہم خوب باخبر ہیں‘ اس سے اعراض یا چشم پوشی برت رہے ہیں۔ مکافات عمل ہمیشہ سے جاری ہے اور ہر عمل اپنا ایک اثر یا نشان چھوڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ کارخانۂ قدرت میں ’’جو بو گے وہی کاٹو گے‘‘ کا قانون نافذالعمل ہے۔ صاحب فہم و شعور ماضی کے واقعات سے نتائج اخذ کرتے ہیں اور ایک خاص نتیجہ پر پہنچ کر اس سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ یہی عبرت یا انتباہ ہے۔ہم قرآن حکیم کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات فوراً آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر فعل اور عمل کو جزا اور سزا کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ ہمارے منفی اور سفلی اعمال‘ جو افراتفری اور بے ترتیبی پیدا کرتے ہیں‘ ان کے باعث ہمیں کسی نہ کسی صورت میں تباہی یا بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہمیں فوراً عبرت پکڑتے ہوئے ایسے کاموں سے دور رہنا چاہئے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ’’عبرت‘‘ کیلئے ’’ذکر‘‘ اور ’’آیت‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں۔سورۃ ’’یوسف‘‘ کی آخری آیت میں لفظ ’’عبرت‘‘ کو واقعہ یوسفؑ کے وسیع تر تناظر میں استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اگلے لوگوں کی سرگزشتوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کیلئے بڑا سامان عبرت ہے۔‘‘ واقعہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کی نافرمانی اور فساد کرنے کی روش کی وجہ سے اسکے اس ایمان کو رد کر دیا جو وہ سمندر میں ڈوبتے وقت لا رہا تھا اور سورۃ ’’یونس‘‘ کی آیت نمبر 92 میں فرمایا کہ ’’اب تو ہم صرف بڑی لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کیلئے نشات عبرت بنے۔ اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔‘‘ سورۃ ’’نازعات‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر 26 میں فرعون کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے ’’عبرت‘‘ کا لفظ لاتے ہوئے ہماری تنبیہ کیلئے فرمایا کہ آخر فرعون کو آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا گیا اور درحقیقت اس میں بڑی عبرت ہے۔ ہر اس شخص کیلئے جو ڈرے۔ اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عبرت وہ پکڑتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور ارباب بصیرت ہوتے ہیں۔قرآن حکیم میں جابجا اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں (مثلاً قوم عاد‘ثمود‘ فرعون‘ مدین‘ سبا‘ اور قوم لوط کا جو تفصیلی ذکر کیا ہے(محمد اسلم چودھری 84/A ابدالین سوسائٹی ،جوہر ٹائون، ۔ لاہور)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024