سیاسی قوت کی مقتدر قوت سے مدد کی اپیل
قبل اس کے کہ ہم پی ڈی ایم کے بائیں بازو پپیپلز پارٹی کے فوج سے پہلے اعلانیہ رابطے پر بات کریں ، پہلے دوچار باتیں پی ڈی ایم کے حوالے سے بھی ہو جائیں تا کہ پی ڈی ایم کے مستقبل سے بھی ہم اپنے پڑھنے والوں کو قبل از وقت آگاہ کر ہی دیں۔ مختصر سی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آئے روز بننے والے اتحادوں کے تناظر میں فطر ی اور غیر فطری اتحاد کا لفظ لکھا ہوتا ہے ،بس یہی کچھ پی ڈی ایم کے لئے بھی ہے کہ پی ڈی ایم کا اتحاد بھی غیر فطری ہے ۔ اس اتحاد میں شامل تین بڑی جماعتوں کے اپنے اپنے اور الگ سے مفادات ہیں جن کے باعث یہ اتحاد اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے بلکہ بہت ہی پہلے دم توڑنے لگا ہے اور اس کی وجہ ہے ،اور وجہ یہ ہے کہ یہ اتحاد ملک یا عوامی مفادات کو مد نظر رکھ کر قائم نہیں کیا گیا بلکہ اس کے قیام کو وجود دینے والی دو بڑی جماعتوں کے بقول حکومت کے اپنی مالی کر پشن کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو ملکی وسائل اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے انہوں یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے کی ۔اور ہمیں بھی حکومتی موقف میں سچائی دکھائی دیتی ہے اس لئے کہ ہم اس اتحاد کو متذکرہ پس منظر میں غیر فطری ہی سمجھ رہے ہیں ،اگر فطری یعنی عوامی مفادات اور ملکی مفادات کے تابع ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ نہ پاتا اور اگر موجودہ حکومتی نظام میں ملکی یا عوامی لحاظ سے کوئی خرابی ہوتی تو یقینا پی ڈی ایم کامیاب ہوجاتی او ر حکومت گرجاتی ۔مگر ایسا ہوتا تو نظر نہیں آرہا بلکہ اُلٹا اتحاد کے بائیں بازو کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے پہلی ضرب پڑتے ہی اُن ہی مقتدر اداروں سے مدد مانگ لی جن ہی کے خلاف بادی النظرمیں یہ اتحاد بنا یا گیاہے ،ہمارا مطلب یہ کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کا تو شروع سے یہی کہنا ہے کہ عمران خان سلیکٹیڈوزیراعظم ہیں جنہیں فوجی سٹیبلشلمنٹ نے سلیکٹ کیا ہے اور پھر یہ بھی کہ پی پی پی کے علاوہ اتحاد کی دائیں بازو کی مسلم لیگ (ن) تو کھلم کھلا فوج کیخلاف باتیں کرتی چلی آرہی ہے بلکہ پی ٹی ایم کے گوجرانوالہ کے پہلے جلسے ہی میں میاں نواز شریف نے فوج کیخلاف جو غیر زمہ دارانہ تقریر کی تو اُنہیں اُسی تقریر کی بناء پر پی ٹی ایم کے کراچی کے حالیہ جلسے میں پی پی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی اورپھر اس جلسے کے اگلے ہی روز مزار قائد پر مریم نواز کے شوہر کی طرف سے نعرہ بازی اور پھر اس کے نتیجے میں اُن کی گرفتاری کے بعد جو صورتحال پید ا ہوئی اُسی کے پیش نظر بلاول بھٹو کی طرف سے آرمی چیف سے صورتحال کے تدارک کیلئے کیا گیا رابطہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ پی پی پی مقتدر قوتوں کے آگے سر تسلیم خم بظاہر تو کرنا نہیں چاہیے گی مگر در پردہ ضرور کچھ ایسا ہی ہے اسی لئے اس حوالے سے پردہ داری ہے
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
دوسری طرف اگر مسلم لیگ (ن) کی بات کی جائے تو اس جماعت کا موقف تو بالکل صاف اور واضع ہی نہیں پی پی پی کے بالکل بر عکس ہے ،تو پی ڈی ایم کی الگ الگ راہوں پر چلنے والی دونوں بڑی جماعتیں کیسے اس اتحاد کو اس کی منزل پر پہنچا سکتیں ہیں ۔قارئین کرام اس کا فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں ۔رہی بات جہاں تک اتحاد کے ٹوٹنے کے حوالے سے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کی خبروں کی گردش کے تو ان میں جان کوئی نہیں یہ لا حاصل کوشیشیں ہیں جن سے بچنے کی ضرورت ہے اصل اندورنی تنازعہ بیان کر دیا گیا ہے اورکل کو یہ اتحاد ٹوٹا تو اس کی وجہ یہی تنازعہ ہوگا ۔اب تھوڑی بہت خبر گیری مولانا صاحب کی بھی ہو ہی جائے لگے ہاتھوں کہ وہ تو اس اتحاد کے سربراہ ہیں اور اُن کے تذکرہ کے بغیر تو تحریر ہی نامکمل لگے گا تو دیکھا جائے تو اس اتحاد کے ٹوٹنے سے سب سے زیادہ نقصان جس کا ہو گا وہ مولانا صاحب ہی کا ہوگا کہ ،بڑی مشکل سے ہوا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ،مولانا صاحب اپنی ہزاروں سال کی بے نوری تو نہیں مگر سال ڈیڑھ سال کی بے نوری کے بعد سیاسی افق پر ’’ہیرو‘‘ بن کے چھائے ہیں ،ہیرو اس لئے لکھا کہ اور (ن) لیگ اور پی پی پی کو دائین بازو اور بائیں بازو کی جماعتیں انہیں اُن کے سیاسی نظرئیے کی بناء پرنہیں بلکہ جلسوں کے اسٹیج پر پی ڈی ایم کے ہیرو مولانا صاحب کے دائیں بائیں بیٹھتا دیکھ کر لکھا ۔
دیکھا جائے تو اندرسے مولانا جی بھی نواز شریف صاحب کے ہم نظرئیہ تو تھے ہی اب پارلیمانی سیاست سے باہر ہونے کے دکھ میں میاں صاحب کے ہم خیال بھی ہو چکے ہیں اور مقتدر حلقوں کے خلاف پی ڈی ایم جلسوں سے پہلے اپنے لانگ مارچ جیسے بڑے بڑے اجتماعات میں کھلم کھلا ’’اظہار ِناپسندیگی ‘‘ بھی کرتے صاف سنے جاتے ہیں ،ا ب جہاں تک بات ہے اتحاد کے ٹوٹنے کے خدشات کی تو یہ دونوں بڑی جماعتوں سے زیادہ مولانا صاحب کو لا حق ہوں گے یقینا کہ ان سے ایک تو پارلیمنٹ کی کرُسی چھنی اب اسٹیج کے درمیان والی کرسی بھی سرکتی محسوس کر رہے ہوں گے وہ بھی یقیناتو ایسے میں تو ہم پھر یہی کہیں گے نا ،،،کہ یہ اتحاد ہی غیر فطری ہے اگر فطری ہوتا تو بلاول بھٹو کو آرمی چیف سے مدد کی ضرورت پڑتی نہ ہی مولانا صاحب کے بڑی مشکل سے چمن میں پیدا ہونے والا دیدہ وران سے غائب ہوتا ۔اس لئے ہمارا اب بھی ملک کی تینوں اہم سیاسی قوتوں سے یہی کہنا ہے کہ وہ ملک کی سب سے اہم مقدر قوت سے محاذ آرائی کی سوچ ترک کر کہ اپنی اصلاح کریں اور ذاتی مفادات کو بھول بھلا کر ملک اور عوامی مفادات کو مقدم جانیں اور خود سے ووٹ کو عزت دینے کی سوچ اپنائیں اگر انہوں نے خود ووٹ کو عزت دی ہوتی تو یہ جاری جنگ ذاتی نہیں بلکہ عوامی مفادات کی ہوتی جس میں پی ڈی ایم کو فتح حاصل ہوتی نہ کہ یوں شکست سے دوچار ہوتے۔