عہداسلامی میں علاج اورشفاخانے
شرع نے جس طرح عقیدہ ،دین ،علم اوردوسرے دینی ودنیوی امورکے لئے اصول اوراحکام بتائے ہیں اسی طرح صحت وتندرستی کے بھی اصول بتائے ہیں ،علاج معالجہ کی اہمیت افز ائی کی ہے اوراس کے لئے عمدہ انتظامات بھی کئے ہیں مسلمانوں نے اپنے دورحکومت میں حکیموں ،طبیبوں کی سرپرستی کی ،معا لجین تیار کئے اورانہی کے ذریعے شفاخانے اوردواخانے قائم کئے انہی کی کاوشوں اورتجربوں کی روشنی میں طب جدیدنے ترقی کرکے یہ حیرت انگیزکانامے انجام دیئے ہیں جوہم اپنے گردوپیش دیکھ رہے ہیں اوراس سے ہمارے بیمارفائد ہ اٹھارہے ہیں اس بارے میں مسلمانوں کے پیش نظر نبی اکرم ﷺ کایہ ارشاد::تمھارے جسم کابھی تم پرحق ہے ۔(بخاری ومسلم) تمام اسلامی عبادتوں نماز ،حج اوراس سے متعلق ارکان واجبات اورشرطیں جسم میں صحت ،چستی اور توانائی پیداکرتی ہیں ،نیز بیماری اور اسکے ازالے اورقوت مدافعت پیداکرنے کی جانب اسلام خصوصی توجہ دیتاہے ،یہی وہ بنیادیں تھیں جس نے مسلمانوں کو علم طب کی جانب متوجہ کیااورطبی مراکزاورشفاخانے قائم کرکے ایسے حکماء اوراطباء پیداکردیئے کہ جس پہ دنیاکو آج بھی فخرونازہے۔ جزیرہ عرب،فارس کے بعدبادشاہ کسریٰ کے قائم کردہ طبی ادارے جندیساپورسے شناساتھا جسکی کسریٰ نے چٹھی صدی عیسوی کے وسط میں بناڈالی اوراس سے اطباء فارغ التحصیل ہوئے انہی میں مشہورعرب طبیب حارث بن کلدہ تھاجونبی کریم ﷺ کے زمانے میں زندہ تھااوربیماروں کاعلاج کیاکرتاتھاصحابہ کرام میں سے اگرکوئی بیمارہوتاتوحضورﷺ اسے حارث بن کلدہ سے علاج کرانے کامشورہ دیتے تھے بہت سی بیماریوں کے لیئے خودحضورﷺ کوئی علاج تجویزفرماتے تھے اوراس کے استعمال سے شفایابی ہوجایاکرتی تھی انہی میں ،عجوہ،کھجورہے جس کومتعددبیماریوں کاعلاج بتایا۔علامہ ابن قیمؒنے ان تجاویز کو،طب نبوی ،کے نام سے مرتب کیاہے میدان جنگ میں مرہم پٹی اورفوری علاج کے لئے نبی کریم ﷺ اپنے ہمراہ کچھ لوگ اورخواتین کوبھی لیجایاکرتے تھے اس طرح دوقسم کے شفاخانے عصرنبوی ہی سے قائم ہوچکے تھے ،مستقل شفاخانے اورگشتی شفاخانے ،گشتی شفاخانہ جوفوجی نوعیت کاتھاوہ غزئوہ خندق میں رسول اللہ ﷺنے قائم فرمایاتھا۔جب حضرت سعدؓبن معاذ کے بازوکی ایک رگ ،اکحل،زخمی ہوگئی توآپﷺنے انکے علاج کیلئے فرمایاکہ انھیں رفیدہ کے خیمے میں پہنچادوتاکہ میرے قریب رہیں اورمیں انکی باآسانی عیادت کرسکوں ۔بعدمسلمان خلفاء اورمسلمان بادشاہوں نے اس کو بہت زیادہ وسیع کرکے ترقی یافتہ بنایا۔ان گشتی شفاخانوں میں نہ صرف اطباء بلکہ نرسیں ،دوائیں اورکھانے پینے کامکمل سامان رہتاتھااوران گائوں ،دیہاتوں ،قصبوں اوردورودرازکے علاقوں میں گشت کرتے رہتے تھے جہاں مستقل شفاخانے قائم نہیںہوسکے تھے ،عباسی وزیرعیسی بن علی جراح نے بغدادکے حکیموں کے سربراہ اورشفاخانوں کانگران اعلیٰ سنان بن ثابت قرہ کوتحریرکیاکہ مجھے دریائی علاقوں کے بارے میں بڑی فکرہے وہاں بیماریاں کثرت سے ہوتی ہیں اورمعالج اورحکیموں کی کمی ہے بلکہ نایاب ہیں اس لئے تم فوراحکیموں کی ایک جماعت تیارکرواور ان کے ہمراہ دوائوں کی ایک الماری کردووہ دیہی علاقوں میں گشت کریںاورایک ایک گائوں اوردیہات میں منتقل ہوجایاکریں ۔ان گشتی شفاخانوں میں اتنی ترقی ہوئی کہ سلطان محمودسلجوقی کے زمانے میں چالیس چالیس اونٹوں پردوائیں منتقل کی جاتیں ۔بغداد کی خلافت کے بعد اس طرزعلاج کو مصرپھرشمالی افریقہ اور اندلس میں اختیارکیاگیااندلس نے اتنی ترقی کی اورطب وعلاج کواتنافروغ ہواکہ یورپ کے تمام ممالک اس سے فیضیاب ہوئے اور جدیدطب نے اپنی دیوہیکل عمارت انہی مستحکم بنیادوں پر تعمیرکی خلافت عباسیہ کے مشرق میں ایران وخراسان اورہندوستان تک نے اس طریقہ علاج کواپنایااور اسے ترقی پذیربنایا۔ان گشتی شفاخانوں کے علاوہ مستقل شفاخانے بنائے گئے جنھیں ،بیمارستان ، کے نام سے یاد کیاجاتاتھا عصراسلامی میں سب سے پہلامستقل شفاخانہ اموی خلیفہ ولیدبن عبدالملک کے زمانہ میں بنایاگیاجو اگرچہ جذام کے مریضوں کے لئے مخصوص تھامگر اس میں اوردوسری بیماریوں اور آنکھوں کابھی علاج کیاجاتاتھااس میں مریضوں کے کھانے پہننے اوربسترولحاف اور خدمت گزاروں کا مکمل انتظام تھا ،طبیبوں کی تنخواہیں مقررتھیں بعد میں اسی طرز پراسپتال کے قیام کاعام رواج شروع ہوااوردارالحکومت ،شہراور قصبے میں ایک یااس سے زائد شفاخانے بنائے گئے اور روزبروز اس کی تعداد میں اضافہ ہوتاگیا ،صرف قرطبہ میں پچاس شفاخانے تھے جواندلس کا ایک شہر تھا بعد میں ان شفاخانوں کو مختلف اداروں اور ضرورتوں کے لئے مخصوص کردیاگیا۔فوج کے لئے علیحدہ بیمارستان قائم کیاگیا جس میں مستقل طور سے اطباء رہتے تھے خلفاء سپہ سالاروں رئوسااور اعیان سلطنت کے اپنے مخصوص معالجین تھے قیدیوں کے لئے الگ سے شفاخانے تھے جس میں اطباء روزانہ بیٹھتے تھے اور علاج کرتے تھے ان شفاخانوں کے علاوہ ایسے ہنگامی شفاخانے (فرسٹ ایڈ) بھی قائم کئے گئے تھے جوعمومامسجدوں ،عوام کی رہائش گاہوں ،بازاروں کے قریب ہوتے تھے مقریزی نے ذکر کیاہے کہ بادشاہ ابن طولون نے جب اپنی مسجد تعمیر کی تواس کے پشت پروضوخانہ سے کچھ فاصلہ پر ایک ہنگامی دواخانہ بنوایاتمام دوائوں کے علاوہ خدمت گارمتعین کیاجوجمعہ کے روزخاص طورسے بیٹھتاتھاکہ اگر کسی نمازی کوکوئی تکلیف ہو تووہ فوری طورپر طبی امدادبہم پہنچائے۔