خسرہ کی وباء
مکرمی :پاکستان سمیت ترقی یافتہ ممالک میں خسرہ سے بچوں کی موت واقع ہو رہی ہیں ۔ترقی پذیر ممالک میں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں خسرہ بہت مضر اور جان لیوا بیماری سمجھا جاتا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں 2011ء میں 4386 بچے متاثر ہوئے۔ 2012 میں تعداد بدقسمتی سے اور بڑھ کر 14687 ہو گئی جبکہ 2012ء میں 310 بچے اپنی جان کی بازی ہار گئے۔2013ء میں حالات اس سے بد تر ہو گئے 25 ہزار 401 بچے اس بیماری کی وجہ سے متاثر ہوئے اس سال 321 بچے لقمہ اجل بنے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جہاں دنیا میں اس بیماری کے مریض کم ہو رہے ہیں وہاں پاکستان میں اس کی تعداد روز بروز اضافہ ہو رہاہے یہ تعداد ان بچوں کی ہے جن کا حال میں طبی معائنہ کیا گیا۔ ان میں وہ بچے شامل ہی نہیں جن کا چیک اپ نہیں ہوا۔ اس کیلئے کسی لمبے پروسیجر کی ضرورت نہیں بلکہ 2 حفاظتی ٹیکے لگوانے سے بچوں کو خسرہ سے مکمل صحتیابی مل جاتی ہے۔ پہلا ٹیکہ 9 ماہ اور دوسرا 12 سے 15 ماہ کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔عوام میں اس حوالے سے جلد سے جلد آگہی مہم چلائی جائے۔ تاکہ لوگوں کو اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہوں سکیں وہ اپنے بچوں کو اس مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں اب بارے میں بر وقت ضروری اقدام کر سکیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے پبلک سروس میسج کے ذریعے عوام میں آگاہی مہم چلائی جائے پاکستان میں دیگر اداروں کو بھی ضروری اقدام اٹھانے کی ترغیب دی جائے۔ بچے قیمتی اور مستقبل کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ پرہیز علاج سے بہتر ہوتی ہے۔ خسرہ سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے مفت دستیاب ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو بھی اس چیز کا شعور دلایا جائے تاکہ وہ صرف اپنے بچوں کی صحت محفوظ رکھ سکیں بلکہ اس سے ہمارے قیمتی سرمایہ کو بھی ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
(ریحانہ عطا، آئی ایم سی جی پوسٹ گریجویٹ کالج اسلام آباد)