الٹے قدم
’’ سلیکٹ ‘‘انگریزی زبان کا بہت ہی بامعنی لفظ ہے روزمرہ زندگی میں عام لوگوں بھی جب ملی جلی اردو میں بات کرتے ہیں تواس لفظ کا استعمال کر لیتے ہیں،کرکٹ میں جب کوئی میچ ہوتا ہے تو ٹاس جینے والاکپتان پہلے فیلڈنگ یا بیٹینگ میں سے کسی ایک کو چنتا ہے تو انگریزی کمینٹیٹر بھی کبھی سلیکٹ کبھی ایلیکٹ اور کبھی کسی اور لفظ سے کپتان کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہیں یعنی کرکٹ یا عام استعمال میں اس کا ایک ہی مطلب لیاہی لیا جا تا ہے اور اس سے کوئی الگ الگ تاثر نہیں جڑا ہوا ہے ،مگر جب بلا ول بھٹو زرداری نے اس لفظ کو قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں استعمال کیا تواس کا پیدا کردہ سیاسی تاثر کسی کی بھی کئی گھنٹے کی تقریر یا منجھے ہوئے مقرر کے دلفریب خطاب سے کہیں ذیادہ تھا ،اس لفظ کی کاٹ جن تک جانا چاہئے تھی ضرور گئی ہو گی اور ان کو آج بھی ڈیسک بجانے پر افسوس ہو گا، یہ لفظ اب با کثرت سیاست میں طواف کر رہا ہے ،’’کسی کا بہت ساروں میں سے ایک کو چننا یا بہت ساروں کی طرف سے چند دستیاب آپشن میں سے کسی ایک کے حق میں رائے دینا ،دو مختلف چیزیں ہیں ،خاک نشیں کوز بان و بیان پر دسترس کا کوئی دعوی نہیں ہے، اس معصومانہ سی بات سے نجانے کیا، کیامطلب کشید ہو جائیں، اس لئے سلیکٹ اور ایلیکٹ کو راہ میں چھوڑتے ہیں ،یہی کوئی چند سال ہوئے ،آزاد کشمیر میں بلاول بھٹو نے ایک خطاب کیا تھا اور اس میں ایک نعرہ بھی لگایا، جو یہ تھا کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے، غدار ہے،یہاں بھی سیاست سے کنی کتراتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا نعرہ تھا جو اپنی شدت کے باعث ہدف کو ضرر دینے کے کافی تھا،اس طرح محترمہ بی بی نے چمک کا لفظ استعمال کیا ،جو ایک خاص معنوں میںکسی بھی رنجیدہ اور دل گرفتہ سیاست دان کی زبان سے ادا ہو جاتا ہے ، بلاول بھٹو میں اپنی والدہ محترمہ اور نانا جان کی طرح بظاہر ایک بے ضرر لفظ سے اپنا سارے کا سارا سیاسی موقف بیان کر دینے کی صلاحیت ہے ،سمجھنے والے سمجھ بھی جاتے ہیں ،طولانی تقریروں اور گھنٹوں چلنے والی پریس کانفرنسوں میں عمومی طور وہ تاثر پیدا نہیں ہو پاتا جو ایک بامعنی لفط یا جملے سے پیدا ہو سکتا ہے، ،آج جب ہم سیاست کے رپورٹ کارڈکو دیکھتے ہیں تو پی پی پی پہلے نمبر سے کھسکتی ہوئی تیسرے نمبر پر آ چکی ہے ،ایسا ہو چکا ہے،اور سیاسی جماعتوں کے عروج وزوال پر نظر رکھنے والوں کے لئے یہ ایک اچھا کیس سٹڈی ہے ، اور قیادت کے لئے لمحہ فکریہ بھی،جب یہ بولا جائے کہ پی پی پی غریبوں میں سے غریب لوگوں کی جماعت ہے،جب یہ بھی سمجھا جائے کہ یہ دائیں بازوکی بھی جماعت نہیں ہے،تو اس کایوں ریورس گئیر میں چلنا بہت سے سوال جنم دیتا ہے ،اس کا جواب دینا ضروری ہے ،عام طور پر پی پی پی ،میںیہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ایک بار زمین چھوڑ دی جائے تو اس کو دوبارہ حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے،اس شکست خوردگی کے احساس کی وجہ سے کام ہی نہ کیا جائے تودرست قدم نہیں ہو گا ،ملک کی آبادی 20کروڑ سے ذیادہ ہے اس میں سے بھی اکثریت نوجوانوں کی ہے ،ان کثیر افراد تک رسائی لینے کی کوشش نہ کرنا ہے اصل مسلہ ہے ،وسائل کی کمی ہے یا عزم کا ایشو ہے،محسوس ہوتا ہے کہ دونوں موجود ہیں،چند سال پہلے کی بات ہے کہ میں ایک گروپ کے راہنماء کے دفتر گیا ،اس دوران بہت سے لوگ آتے رہے ،وہ راہنما ء ہر آنے والے کو اس کے نام کے ساتھ پکارتے رہے،بعد میں نے ان کی یاد داشت کی تعریف کی تو وہ کہنے لگے کہ میری لیڈرے اس وجہ سے چل رہے ہے کہ میں جانتا ہون کہ میرے ساتھ کون ہے اور ان کو بھی جانتا ہوں جو میرے ساتھ نہیں ہیں،زرا جانیں تو کہ ارد گرد کون ہیں،پھر ان کو کام دیا جائے جو دل وزبان سے ساتھ ہیں،آج جب سیاست گھمبیر مسائل میں الجھی ہوئی ہے ،لیکن یہ ایک موقع بھی دے رہی ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی درست توجیح کو اختیارکیا جائے ،سمندری لہر سے ٹکرانا الگ بات ہے اور اس کی لہر پر سوار ہو کر آگے بڑھنا الگ چیز ہے اس امر کا انتخاب سوچ کر کرنا ہی سیاست کی معراج ہوتی ہے ،خود کو سندھ تک محدود رکھنا درست نہیں ہے ،جس طرح کے حالات ہیں ،ان کے پیش نظر یہ سمجھ جانا چاہئے کہ سندھ کے پاور بیس کو قائم رکھناضروری ہے مگر یہ بھی ہرگذرتے دن کے ساتھ چیلنج بنتا چلا جائے گا ،اس چیلنج کا مقابلہ آگے بڑھنے میں ہے ، جب انتخابات ہو رہے تھے تو عام خیال یہی تھا کہ کراچی میں جو جگہ پیدا ہوئی اس کا ذیادہ حصہ پی پی پی کو ملک گا مگر ایسا تو نہیں ہو سکا ہے ،سارے تحفظات سامنے رکھ بھی لئے جائیں تب بھی کراچی آپ کا نہیں ہو سکا ہے ،پنجاب میں تو ایک بہت ہی بڑی سیاسی مہم کی ضرورت ہے ،اٹک سے لے کر راجن پور تک پہلے یہ تو جان لیں کہ ووٹر لسٹ میں جن لوگوں کے نام درج ہیں وہ کون ہیں،ان تک رسائی تو بعدکا مرحلہ ہو گی ،خوش گمانی اور خوش خیالی سے کا م نہیںچلنے والا ہے،کم از کم ان لوگوں کو تو تنظیم سے دور کریں جن کے پاس وقت نہیں ہے ،پی پی پی کی میڈیا پالیسی کیا ہونا چاہئے اس کے لئے پارٹی کے اند کوئی تھنک ٹینک کام کر رہا ہے اس کا تو علم نہیں ،مگریہ بات ضرور دیکھی ہے کہ تجاہل عارفانہ کو جو سلسہ دہائیوں سے جاری تھا ہنوز چل رہا ہے ،سو جاری رکھیں اور دکھ بھرے لہجے میں یہ کہتے چلیں جائیں، کہ میڈیا ذیادتی کر رہا ہے ،اس کو سمجھنا چاہئے کہ ون وے کمیونیکشن کو ترک کرنا چاہئے اور اس کو ٹو وے بناننا چاہئے،جب بھی کسی خاص صورتحال میںکوئی دستیاب نہ ہو تو اس سے ڈور الجھتی ہے۔