معاشرتی حسن کی قوس وقزاح
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے انسان انواع واقسام کی چیزیں اپنے آرام وآسائش کیلئے بنا رہا ہے اور ترقی کے سفرکے ساتھ ساتھ ان اشیاء میں جدت بھی لایا ہے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ آرام دہ اور پرکشش بنایا جائے اس لئے نئی ایجادات کا پہیہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے تجسس چونکہ انسان کی فطرت میں شامل ہے اس لئے جستجو اورخوب سے خوب ترکی تلاش ہمیشہ جاری رہتی ہے ترقی کا یہ سفر کبھی رکا نہیں قدیم انداز جدت میں ڈھل گئے ہیں جن کی چمک دمک انکھوں کو خیرہ کردینے والی ہے۔ آج معاشی اورمادی ترقی کا سورج نصف النہار پرہے جبکہ معاشرتی، سماجی، اخلاقی طور پر ہم بحیثیت قوم دیوالیہ پن کا شکار ہیں اور ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں دوسروں کا مال ہڑپ کر کے اس پر عشرت کرنے کو ہم اپنے زور بازو کا کرشمہ سمجھتے ہیں، یتیم ، لاچار اور بے کس لوگوں کی جائیداد و مال کو دھوکہ دہی سے ہتھیا کر اپنے مکانات محل نما بنانے اور عاد وثمود کے قوم کے افراد کی طر ح ان پر جھوٹی شان دکھانا روز مرہ کا وطیرہ بن چکا ہے شاید یہ لوگ اس قوم کے انجام سے بے خبر ہیں ان کی ہوس زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں تک محدود نہیں رہتی بڑھتی چلی جاتی ہے اس میں اضافے کیلئے جائز ناجائز کی تفریق مٹ جاتی ہے اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تو سب ہی تیار رہتے ہیں اس میں مرد اورخاتون کی کوئی تخصیص نہیں ، زر اور زمین کی چاہ میں انسان اپنی تخلیق کا عظیم مقصد بھلا بیٹھا ہے ایک یہی پہلو نہیں جس انداز سے بھی اشرف المخلوقات کا جائزہ لیا جائے تو وہ سراسر گھاٹے(خسارے) کا سودا کرنے میں لگی ہوئی ہے، چوکیدار چوروں سے مل گئے ہیں دودھ کی راکھی پربلی کو بیٹھا دیا گیا ہے، امانتوں کی حفاظت کیلئے امین افراد ناپید ہیں، آبائو اجداد کے ورثے کی حفاظت کرنے والے اپنی ذات سے بے خبر ہیں، کیا ہم نے کبھی اس پرغورکیا ہے کہ معاشی ترقی اور پر آسائش زندگی کے باوجود ہمیں سکون اور اطمینان قلب کیوں نہیں ، ہم کیوں ہر وقت افراتفری کا شکار رہتے ہیں اس اضطراب اور بے چینی کی وجہ کیا ہے غورکیا جائے تو اس سوال کا جواب بہت آسان ہے صرف ہمیں غورکرنے کی ضرورت ہے، آپ گھرمیں جب بھی کوئی چیز لاتے ہیں اس کے ساتھ ایک کارڈ ہوتا ہے جس پر اس پراڈکٹ کے بارے میں تمام معلومات ہوتی ہیں، یہ کارڈ دراصل اس مصنوعات کا گارنٹی کارڈ ہوتا ہے کہ جو چیزآپ نے خریدی ہے اس کے استعمال کا طریقہ کیا ہے۔ دھوپ اور بارش سے بچانا
ہے، کتنے درجہ حرارت پر رکھنا ہ اگر آپ نے ان ہدایات پرعمل کیا تو یہ مقررہ وقت تک بالکل ٹھیک کام کریگی اور اس میں کوئی خرابی نہیں آئے گی یہ مثال ہر اس چیز پر لاگو ہوتی ہے جو آپ کے زیرا ستعمال آسکتی ہے اس زمرے میں کمپیوٹر، ٹی وی، برقی اور مشینی آلات، فرنیچر اوردیگراشیاء جنہیں خریدنے کے بعد ہم کوشش کرتے ہیں کہ انہیں ان کے ساتھ دیئے گئے کارڈ کی ہدایات کے مطابق استعمال کریں اور انس ے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں مگر شاید انسان اپنے ہی اس کارڈ کو پڑھنا بھول گیا ہے جو اس کے ساتھ ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پرآیا ہے جبکہ ہمارا سارا حسن معاشرت طرز معاشرت اس کے ساتھ جڑا ہوا ۔ انفرادیا ور اجتماعی طور پر ہر چیز اس کے ساتھ وابستہ ہے، ہم بحیثیت انسان چیزوں کے ساتھ عارضی ملکیت رکھتے ہیں اور اس پربھی کتنے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں اور وہ خالق حقیقی جو ہماری حیات ارضی سے بھی پہلے اور دائمی ٹھکانے کے بعد بھی ہمارا مالک و مختار ہے اس کے احکامات کیسے پس پشت ڈال سکتے ہیں ہمارے ساتھ ہدایت کی جو کتاب آئی ہے اس میں زندگی گزارنے کیلئے تمام احکامات روز روشن کی طرح عیاں ہیں، حقوق کیا ہیں، فرائض کیا ہیں کی بجا آوری کیسے کرنی ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کیسے ادا کرنے ہیں۔ حکومت، دولت، شان وشوکت اختیارات ہم سارے سوالوںکی بحث میں تو نہیں پڑتے اگر صرف ان کے جواب ڈھونڈ لیں جن پر عمل پیرا ہوکر ہم معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بناسکتے ہیں ، لوگوں کی زندگیوں میں آسانی اورخوشی لاسکتے ہیں مگراس کے لئے ہمیں اپنے ساتھ آئے ہوئے ضابطہ حیات کو پڑھنا ہوگا اگر ہم ایمانداری کو اپنا شعار بنالیں اور لوگوں سے معاملہ کرتے وقت اس اصول پرعمل پیرا ہوجائیں تو بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ قول وفعل میں سچائی خریدوفروخت میں دیانتداری لین دین کرتے ہوئے صرف اسی اصول پر کاربند رہا جائے، اس سے رشوت، ناجائز کمائی اوربے ایمانی کے دھندوں سے نجات مل جائیگی اور آپ ذہنی طور پر پرسکون ہوتے جائیں گے، حلال اورحرام کی کمائی کا فرق آپ کے اور اہلخانہ کی روحانی اورجسمانی صحت میں واضح طور پر نظرآنے لگے گا۔ دوسرا اہم نقطہ اختیارات کا ناجائز استعمال کا ہے اس سے بھی معاشرے میں بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر یہ دیمک زدہ معاشرہ آہستہ آہستہ تباہی کے کنارے پہنچ جاتا ہے اس سے معاشرے میں انارکی اور افراتفری پیدا ہوتی ہے، اداروں میں نااہل افراد اپنی نااہلیت کو چھپانے کیلئے ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیںجوکسی بھی مہذب معاشرے میں اچھے نہیں سمجھے جاتے مگر نااہل افراد انہیں اپنی بقاء کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ معاشرے میں جتنی بھی اکائیاں ہیں ان کی ترتیب اگر درست سمت رہے تو معاشرتی حسن کی قوس وقزاح ہر سو نظر آئے گی شرط صرف کارڈ کو پڑھنے کی ہے۔