ہمارا نظام کرپشن کو کیسے فروغ دیتا ہے
گزشتہ سے پیوستہ
شریف خاندان کے سب سے بڑے سہولت کار فواد حسن فواد کی گرفتاری کے بعد آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں ان کے سب سے بڑے آلہ کار انور مجید او ر ان کے بیٹے عبدالغنی کی گرفتاری سے پیپلزپارٹی کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔ منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے مالک انور مجید کی گرفتاری ایک ڈرامائی صورت میں سامنے آئی۔ ان کے بعد سیاسی حلقے پارٹی کی دو بڑی شخصیات آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی گرفتاری کا قوی امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ اس معاملے کے اثرات آئندہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت پر پڑنے کی پیشگوئی بھی کی جا رہی ہے۔ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے خلاف پینتیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم ہیں۔ایف آئی اے کی تحقیقات کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 23 ارب روپے کی منی ٹریل کا پتہ لگایا جا چکا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق بنکوں سے حاصل کئے جانے والے اب تک کے ریکارڈ سے انکشاف ہوا ہے کہ منی ٹریل ستر ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ مسلسل ریکارڈ ملنے کے باعث منی لانڈرنگ کے 75 ارب روپے سے بھی تجاوز کرنے کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمات میں آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر بھی شامل ہیں اور ان کے خلاف بھی تحقیقات ہو رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک زمانے میں یہ ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بھی تین مرتبہ وفاق میں اور متعدد بار سندھ میں اس کی حکمرانی رہی لیکن اب یہ سمٹ کر سندھ کے چند دیہی علاقوں تک محدود ہو گئی ہے۔ تاہم وہ حالیہ انتخابات کے بعد سندھ میں کسی طرح تیسری بار مسلسل حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی جبکہ اپنے گڑھ لیاری سے پیپلزپارٹی کے نوخیز چیئرمین بلاول بھٹو عبرتناک شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ان کی بہن فریال تالپور اور سندھ حکومت کے اعوان و انصار پر مقدمات قائم ہیں اور ان کے خلاف ثبوت و شواہد کی روشنی میں فیصلے آ گئے تو ان کی ذلت و رسوائی کا عالم و حشر شریف خاندان اور ان کے شریک جرم ساتھیوں سے بھی برا ہو گا۔ کچھ عجب نہیں کہ پارٹی سندھ کی حکمرانی سے بھی محروم ہو جائے اور اس کا وجود باقی رکھنے کے بھی لالے پڑ جائیں۔ انور مجید کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ فواد حسن فواد کی طرح تمام حقائق سے پردہ اٹھانے اور وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے آمادہ نہیں ہیں لیکن ایک بار احتساب کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد غلط بیانی سے حقائق کو چھپانا ان کیلئے ممکن نہیں ہو گا۔ ایف آئی اے نے ان کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کئی رہنماؤں اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران کے خلاف ٹھوس ثبوت و شواہد جمع کر کے سپریم کورٹ میں پیش کر دئے ہیں جس کے بعد ان کا یا کسی اور غلط کار کا بچ نکلنا آسان نہیں۔ پیپلزپارٹی اپنے سربراہ اور سرپرستوں کو بچانے کیلئے بری طرح ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ آصف علی زرداری کی سودے بازی کی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جا رہا ہے کہ وہ عمران حکومت ‘ مسلم لیگ‘ مقتدر اداروں اور انصاف کے ایوانوں میں نقب لگا کر اپنی اور اپنی پارٹی کی بریت و برات کا اہتمام کرلیں گے۔پچھلی مرتبہ انہوں نے ایوان صدر کا مکین بن کر استثنیٰ حاصل کر لیا تھا جس کے بعد مسلم لیگ کی حکومت نے بھی مک مکا کے تحت ان سے کوئی بازپرس نہ کی۔ اس مرتبہ بھی آصف علی زرداری کے حامی حلقے یہی کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح بچ نکلیں گے اور اس کی خاطر وہ کسی بھی حد تک آگے جا سکتے ہیں لیکن مقتدر اداروں اعلیٰ عدلیہ اور تحقیقاتی ایجنسیوں میں ہوا کا بالکل ہی بدلا ہوا رخ انہیں تحفظ فراہم کرتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
مالی معاملات کے علاوہ پیپلزپارٹی کے حکمران ٹولے کے خلاف قتل و غارت اور دہشت گردی کے مقدمات بھی کھلنے لگے تو عزیر بلوچ‘ عبدالرحمٰن ڈکیٹ اور بابا لاڈلا جیسے کئی نامور گروہ سامنے آئیں گے۔ عزیر بلوچ جیسے پیپلزپارٹی کے دہشت گرد مخالفین کے سرکاٹ کر وحشیوں کی طرح ان سے فٹ بال کھیلتے تھے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے یہ ریمارکس قابل غور ہیں کہ ہم نے منی لانڈرنگ کا ازخود نوٹس لیا ہے اور اس کیس کی نگرانی کرتے رہیں گے۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھتوں اور کمشن لینے کا آغاز کرنے والے ان کے شوہر آصف علی زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے لقب سے مشہور تھے پھر پیپلزپارٹی کے اگلے ادوار میں وہ قومی دولت کے لوٹ کھسوٹ‘ بھتوں کی وصولی ‘ زمینوں پر قبضوں اور صنعت و تجارت کے اکثر بڑے معاملات میں اپنا کمیشن بڑھاتے بڑھاتے مسٹر سینٹ پرسنٹ(یعنی سو فیصد والے) قرار پائے اور ان کی یہ شہرت پاکستان ہی میں نہیں بیرون ملک بھی دوام حاصل کر گئی۔ اداروں اور عدالتوں کی سست رفتاری پر اہل وطن سخت پریشان و حیران ہیں کہ کھربوں روپے لوٹ کر اپنے عزیز و اقارب اور فرضی ناموں سے بیرون ملک منتقل کرنے والے اب تک قرار واقعی سزاؤں سے کیونکر بچے ہوئے ہیں؟ قوم کو حاضر‘ سابق حکمران ‘ سیاستدان اور نوکرشاہی کے کل پرزوں میں سے کسی کو جیل میں ڈالنے یا پھانسی پر چڑھانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اصل میں ان کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اور پیٹ پھاڑ کر ساری دولت نکلوائی جائے تب ہی تو ملک اور قوم کے درد دور ہو سکتے ہیں۔ ان کے بعد کوئی نیا قرضہ لینے کی مجبوری باقی نہ رہے گی بلکہ سارے پرانے قرضے بھی ادا ہو سکتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق ڈیم بنا کر پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ بجلی کے منصوبے شروع کر کے وطن عزیز کو تاریکی سے مستقل نجات دلائی جا سکتی ہے۔ صحت و تعلیم کے شعبوں کو فعال بنایا جا سکتا ہے اور صنعت و تجارت کی ترقی سے بے روزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ نوازشریف ان کے خاندان کے افراد اور ساتھیوں کے خلاف سزاؤں اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کے باوجود ملک کو اب تک مالی شعبوں میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ آصف علی زرداری ‘ فریال تالپور‘ اویس ٹپی جیسے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے نہ جانے کتنے لوگ اب تک قید و بند کی سزاؤں سے بھی بچے ہوئے ہیں تو ان سے لوٹی ہوئی دولت اگلوانے میں مزید کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ اس تاخیر کی وجہ سے عوام کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا ہونا لازمی ہے۔