کم و بیش اسی طرح کی صورتحال کا ذوالفقار علی بھٹو کو سامنا تھا۔ مشرقی پاکستان سے علیحدگی کے بعد جب بھٹو نے بچے کھچے پاکستان میں اقتدار سنبھالا تو وہ کسی آئینی انتظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک کے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنے۔ ان کے ناقدین ہمیشہ یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ مسٹر بھٹو واحد سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ ملک ٹوٹنے کے بعد چونکہ بچے ہوئے پاکستان میں کوئی آئینی انتظام نہیں تھا اس لئے انہیں ملک کا نظام چلانے کے لئے سویلین صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننا پڑا۔ مسٹر بھٹو نے جلد ہی ملک کو عبوری آئین دیا جس کے بعد انہوں نے مارشل لاء ختم کیا اور وزیراعظم بن گئے۔ پھر انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے تعاون سے 1973ء کا آئین ملک کو دیا۔
پاکستان ٹوٹنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج پیپلز پارٹی کے سربراہ کے لئے ٹوٹی پھوٹی معیشت تھی۔ مشرقی پاکستان سے برآمد ہونے والی پٹ سن پاکستان کا زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ یہ ذریعہ ختم ہونے کے بعد پاکستان کے پاس کوئی قابل ذکر ایکسپورٹ ایبل میٹریل نہیں تھا۔ اوپر سے اپنے منشور کے مطابق بھٹو صاحب نے بڑی صنعتوں ‘ بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کو نیشنلائز کر دیا۔ نیشنلائزیشن نے بھٹو حکومت کے لئے نت نئے مسائل کھڑے کردئیے۔ صنعتکار جن سے ملیں لے کر قومی ملکیت میں دی گئیں مسٹر بھٹو کے خلاف ہو گئے۔ ۔۔۔۔۔ نے مسٹر بھٹو کیلئے بڑے بڑے مسائل کھڑے کئے۔ قومیائی گئی ملیں ‘ کارخانے اور بنک جن بیوروکریٹس کو دئیے گئے ان کی موج ہو گئی۔ ان بیوروکریٹس کو صنعتیں چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ قومیائے گئے اداروں کے ان بیوروکریٹ سربراہوں نے لیبر یونینز کے ساتھ مل کر لوٹ مار بھی شروع کر دی جس سے ان کارخانوں کا بھٹہ بیٹھ گیا۔
لیکن بھٹو ہوشیار تھے انہوں نے اس صورتحال سے نکلنے کے لئے اپریل 1974ء کو اسلامی سربراہ کانفرنس لاہور میں بلائی جو دنیا کی دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں شاہ فیصل‘ شیخ زید بن سلطان النہیان‘ حافظ الاسد‘ لیبیا کے کرنل قذافی‘ الجزائر کے ۔۔۔۔۔ سمیت تمام اسلامی ملکوں کے سربراہ شریک ہوئے حتیٰ کہ بنگلہ دیش جو چند سال پہلے پاکستان سے الگ ہوا تھا کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے بعد مسٹر بھٹو نے تیل سے مالا مال عرب مسلمان ملکوں کے سربراہوں کو قائل کر لیا کہ عرب ملکوں کی تعمیر اور ترقی میں پاکستان کی ہنرمند مین پاور بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کانفرنس کے بعد پاکستان سے بڑی تعداد میں ہنرمند اور غیر ہنر مند افراد ہزاروں کی تعداد میں پاکستان سے سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات‘ عراق ‘ لیبیا اور دوسرے ملکوں میں گئے جنہوں نے سالانہ ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر پاکستان بھجوانا شروع کئے۔ جیوٹ پٹ سن نہ ہونے کی وجہ سے جو نقصان ہوا تھا اسے پاکستان نے عرب ملکوں میں اپنی افرادی قوت بھیج کر پورا کر لیا۔ یہی وہ دور تھا جب بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور پروگرام کے لئے خفیہ مالی اعانت بعض عرب ملکوں نے کی۔
آج کی حکومت جس کے سربراہ عمران خان ہیں کو بڑا معاشی چیلنج درپیش ہے۔ یہ معاشی چیلنج خدانخواستہ پاکستان کے کسی حصے کے بخرے سے پیدا ہوا بلکہ یہ بحران سراسر بدانتظامی‘ بدعنوانی اور ملک کے مستقبل پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان سے اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ حکومت اس سلسلہ میں دستاویزی ثبوت بھی دے رہی ہے ملک سے باہر بھیجے جانے والی اس خطیر رقم کی واپسی کے کوئی امکانات نہیں اس لوٹی ہوئی دولت کو وطن واپس لانا بہت پیچیدہ اور مشکل کام ہے اس کے لئے طویل قانونی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جن ملکوں میں پاکستان کا پیسہ گیا ہے ان کا تعاون بھی ضروری ہے۔ حکومت اگر پرعزم ہے تو لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لئے اسے حوصلے اور عزم سے چومکھی جنگ لڑنا ہو گی۔اس وقت ملک کے روز مرہ کے معاملات چلانے کا مسئلہ ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ تو ہو گیا ہے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ پاکستان آخری دفعہ آئی ایم ایف سے قرض لینے جا رہا ہے۔ اسد عمر صاحب کے پیش رو وزرائے خزانہ بھی یہی دعوے کرتے تھے کہ وہ آخری دفعہ آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں‘ لیکن پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل نہیں پا رہا۔
خان صاحب کو بھی 1971ء ایسی صورتحال کا سامنا ہے۔ لیکن ان کے آپشن محدود ہیں۔ وہ سعودی عرب دوسری مرتبہ جا رہے ہیں‘ سعودی عرب کے بعد انہوں نے ملائشیا اور چین جانا ہے۔ کیا دوست ملک پاکستان کو موجودہ معاشی صورتحال سے نکالنے میں مدد دیں گے ؟ اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ لیکن مشکل صورتحال سے نمٹنے اور قوم کو اس سے نکالنا ہی لیڈر شپ کی صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے۔یہ تو ممکن ہے کہ وہ قوم جسے قرض لے لے کر کھلایا جاتا رہا ہے وہ راتوں رات انقلابی بن جائے۔ کھیت اور فیکٹریاں پیداوار کو کئی گنا بڑھا دیں یا پاکستان کے لوگ جاپان ‘ جرمن اور چینی قوم کی طرح محنت اور جانفشانی سے کام کر کے برآمدات بڑھا کر ‘ درآمدات کو کم کر کے اس سو دن سے نکل جائے۔ ہمیں تو عادت پڑ چکی ہے جو کرنا ہے حکومت نے ہی کرنا ہے۔ فی الحال وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو ایسے آپشن تلاش کرنا پڑیں گے جو قرض سے بہتر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کر سکیں۔ افرادی قوت کی بیرون ملک خاص طور پر عرب ملکوں میں کھپت کے امکانات کم ہیں۔ عرب اسلامی ملک اس وقت ایک خلفشار کے دور سے گزر رہے ہیں پھر بھی اگر سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور کسی مرحلے پر جب لیبیا مستحکم بھی ہو جائے تو پاکستان کی افرادی قوت ان ملکوں میں جا سکتی ہے۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافہ ایک اہم آپشن ہے۔ حال ہی میں قطر کے وزیر خارجہ سے جو بات ہوئی ہے اس میں پاکستان سے ایک لاکھ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے پر بات ہوئی ہے۔ ملایشیا بھی ماضی میں پاکستان سے افرادی قوت درآمد کرنے کا خواہاں رہا ہے یہ بھی ایک آپشن ہے۔
داخلی طور پر معاشی اصلاحات ایک مشکل اور قدرے تکلیف دہ عمل ہے جس کے نتائج جلدی نہیں نکل سکتے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024