عنایات اور ’’نعمتیں‘‘ بانٹنے کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر نوش فرمایا جاتا رہا۔ فنی اور تکنیکی پہلوئوں کے کسی ماہر کو اس قابل نہ سمجھا گیا کہ اس کی خدمات لے لی جاتیں۔2 جولائی 2015ء کو شہباز شریف لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں اپنے دفتر میں ایک میٹنگ کی سربراہی کر رہے تھے۔ صوبائی حکومت کی کئی اہم شخصیات اس میٹنگ میں شریک تھیں۔ ان میں سابق صوبائی وزیرِ خزانہ اور پنجاب صاف پانی کمپنی کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، سابق وزیرِ اعلیٰ کے اپنے بیٹے حمزہ شہباز، جو پنجاب حکومت کے اندرونی پبلک افیئرز یونٹ کے سربراہ بھی تھے اور کئی دیگر شعبوں کے سیکریٹری اور مشیران موجود تھے۔پنجاب صاف پانی کمپنی کے سی ای او فراست اقبال (جو اب فوت ہو چکے ہیں)نے عہدہ چھوڑنے سے قبل شرکاء کو بتایا کہ صاف پانی کی فراہمی کی 135 اسکیموں کو آزمائشی بنیادوں پر ’’بہاولپور ریجن میں بحالی‘‘ کے لیے 89 کروڑ 60 لاکھ روپوں کی قیمت پر شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ ان اسکیموں کے ٹھیکے مسابقتی بولیوں کے بعد واٹر پمپ بنانے والی لاہور کی ایک کمپنی کے ایس بی کو جاری کر دیے گئے تھے۔ منصوبے کا بنیادی مقصد بہاولپور ڈویژن کی 4 تحصیلوں حاصل پور، منچن آباد، خان پور اور لودھراں میں پانی فلٹر اور فراہم کرنے والی اسکیموں کو بحال کرنا تھا۔ اسی میٹنگ کے آس پاس کے وقت میں فراست اقبال کو ہٹا کر وسیم اجمل کو پنجاب صاف پانی کمپنی کا سی ای او مقرر کر دیا گیا۔ نئے باس بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔
انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کردیا۔ پرانی اسکیمیں بحال کرنے کے بجائے انہوں نے تجویز دی کہ کمپنی 12 سے 15 دیہات کے ایک جھرمٹ کے لیے مرکزی حیثیت رکھنے والی ایک لوکیشن پر نہر کے کنارے ایک ٹیوب ویل اور واٹر فلٹر پلانٹ نصب کرے؛ فلٹر شدہ پانی کو ہر گاؤں میں کسی ایک لوکیشن تک پائپ کے ذریعے پہنچایا جائے جہاں دیہاتی اسے آسانی سے حاصل کرسکیں۔ دیہاتی ڈیلیوری چارجز کی مد میں معمولی رقم ادا کریں گے جبکہ حکومت ٹیوب ویل چلانے اور فلٹر پلانٹ کی مرمت و دیکھ بھال کے اخراجات برداشت کرے گی۔ فلٹر پلانٹ مقامی ٹیکنالوجی پر مبنی ہونا تھا کیوں کہ پچھلے فلٹر پلانٹس کی ناکامی کی سب سے زیادہ بتائی گئی وجہ ان میں مہنگی، درآمد شدہ جھلیوں کا استعمال تھا۔ کمپنی نے یہ بھی تصور پیش کیا کہ پانی کی فراہمی کی تمام اسکیمیں ایک ہی معیار کی پابندی کریں گی اور کسی بھی اسکیم میں کوئی زیادہ بڑی تبدیلی نہیں ہوگی۔ جب تک کے ایس بی نے منصوبے پر کام شروع کیا تب تک اس کا پورا تکنیکی اور مالیاتی ڈیزائن تبدیل ہوچکا تھا۔ کمپنی کو بہاولپور ڈویڑن کی 4 تحصیلوں میں شمسی توانائی سے چلنے والے ریورس اوسموس اور الٹرا فلٹریشن پلانٹ لگانے تھے تاکہ نمکین پانی کو پینے کے قابل بنایا جاسکے۔ پلانٹس کو دیہات کے جھرمٹ کے بجائے ہر گاؤں میں ہونا تھا۔ جب تک کے ایس بی نے کام شروع کیا تب تک منصوبے کی کْل لاگت 1.13 ارب روپے تک پہنچ چکی تھی۔
پنجاب صاف پانی کمپنی نے 1 اپریل 2015ء کو پنجاب بھر کی 17 تحصیلوں میں منصوبے کے اگلے فیز کے لیے غیر ملکی اور مقامی کمپنیوں کی بولیاں طلب کرنے کے لیے اشتہار جاری کیا۔ اشتہار سے شروع ہونے والے مرحلے کے نتیجے میں 5 کمپنیاں شارٹ لسٹ ہوئیں جنہوں نے 35 سے زائد اسکیموں پر کام کرنا تھا۔ مگر یہ پیش رفت جلد ہی تتر بتر ہوگئی۔ 19 فروری 2016ء کو شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والی میٹنگ کے منٹس میں تحریر ہے کہ ’’اس حوالے سے سخت تحفظات تھے کہ مبینہ طور پر ان کمپنیوں نے بولیوں کا مرحلہ دھاندلی کے ذریعے اپنے حق میں پلٹایا تھا۔‘‘ اس دھاندلی کا ایک ثبوت پتوکی تحصیل کے تینوں ٹھیکوں کے لیے دی گئی بولی ہے جس میں انجینئرنگ کے اخراجات کا اندازہ ایک ارب روپے سے زائد کا لگایا گیا ہے، جبکہ بولی لگانے والی کوئی بھی کمپنی حکومتی قواعد کے تحت اتنی مالیت کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے اہل نہیں تھی۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پنجاب صاف پانی کمپنی نے وہ راستہ اپنایا جسے وہ ’’پوسٹ کوالیفیکیشن‘‘ مرحلے کا نام دیتی ہے۔ اسے ’’وقت بچانے، مزید فرمز کو دعوت دے کر زیادہ شفافیت پیدا کرنے اور اصول تبدیل کرنے کے لیے اپنایا گیا تھا‘‘ تاکہ بڑے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے والی کمپنیاں اس میں حصہ لے سکیں۔کمپنی کے سی ای او نے میٹنگ کو بتایا کہ یہ اقدامات کئی انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹس اور ڈونر اداروں میں ’’عمومی معمول‘‘ تھے جبکہ یہ حکومت کے جاری کردہ ٹھیکوں پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے پنجاب پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی تھے۔
حالانکہ اس سے پہلے فراست اقبال مرحوم ایک نیک نام افسر بتائے جاتے تھے جنہوں نے بہاولپور میں اسّی سے زائد فلٹریشن پلانٹ لگانے میں اصل کردار اداکیاتھا جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کے بعد یہ منصوبے محض کمائی اور قومی دولت سے رشتہ داروں، چہیتوں کو نوازنے کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔ کیپٹن (ر) عثمان اب عدالت عظمی میں خود اعتراف کررہے ہیں کہ صاف پانی کمپنی کے امور صاف نہیں رہے۔ سابق چیف سیکریٹری پنجاب کیپٹن زاہد سعید بھی تصدیقی مہر لگارہے ہیں کہ چار ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود شہریوں کوایک قطرہ صاف پانی نہ مل سکا۔ وسیم اجمل سرکاری مال پر دوست پروری کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ کیمپس والی نہر کے کنارے گارڈن ٹائون کی جدید بستی کے احمد بلاک میں دفتر کرائے پر لیا گیا جس کا 5 سال کا کرایہ یک مشت پیشگی ادا کردیا گیا۔ اندھا ریوڑیاں بانٹ رہا تھا اور زمانہ تماشا دیکھ رہا تھا۔یہ چیف جسٹس پاکستان ہیں جنہوں نے ’شرافت‘ کے نام پر جاری بدعنوانی کے عریاں رقص کو بند کرایا ورنہ کسے پتہ چلتا کہ کیپٹن (ر) عثمان کے بعد کرتادھر طاہر مجید آٹھ لاکھ ماہانہ بھی لے رہاتھا اور پرائیویٹ کمپنی بھی چلارہاتھا۔ کمپنی کا چیف ٹیکنیکل افسر اپنی پرائیویٹ کمپنی واٹر 2000بھی ساتھ ساتھ جاری رکھے ہوئے تھا۔کسے پتہ چلتا کہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں صوبائی وزیر کے بھائی عاصم قادری کی اہلیہ عظمیٰ قادری بھی بورڈ کی رکن بنادی گئیں۔ اسی صوبائی وزیر کا نام غیرملکی ماہرین کی کمپنی کے لئے خدمات کے حصول میں بھی آرہا ہے۔چیئرمین صاف پانی کمپنی انجینئر راجہ قمرالاسلام اور CEO وسیم اجمل اب نیب کی حراست میں ہیں۔ 84 غیرقانونی واٹرفلٹریشن پلانٹس زیادہ نرخوں پر من پسند افراد میں بانٹنے کے الزام کا انہیں سامنا ہے۔ ان میں 56 ریورس آسموسیس اور28 الٹرافلٹریشن پلانٹ تھے جو حاصل پور، منچن آباد، لودھراں اور خان پور سمیت چار تحصیلوں میں نصب ہونے تھے۔ سابق ترجمان پنجاب حکومت اور صوبائی وزیر زعیم قادری کو بھی نیب نے پوچھ پڑتال کے لئے طلب کرلیا ہے۔ ان کے بگڑنے کی وجہ بھی اب سمجھ آرہی ہے کہ اصل میں چکر کیا ہے۔گاجریں کھانے والوں کے پیٹ میں اب درداٹھ رہا ہے۔
مزید یہ ہوا کہ ابھی بیل پھر بھی منڈھے نہ چڑھی تو نئی ترکیب سوجھی کہ کمپنی کو نارتھ اور سائوتھ دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ کمائی کے اس نئے ذریعے کے تحت نبیل جاوید کو سائوتھ اور کیپٹن عثمان کو نارتھ کا سی ای او بنادیاگیا۔ یاد رہے کہ ان میں سے کسی کا بھی اس شعبے میں کوئی فنی یا تکنیکی تجربہ یا مہارت نہ تھی لیکن لاکھوں روپے ان کی جیب میں چلے گئے۔پھر کیپٹن ریٹائرڈ عثمان کا دور شروع ہوتا ہے۔ نئے تجربے کے تحت کیپٹن صاحب کو صاف پانی کمپنی کا سی ای او نارتھ لگانے کے ساتھ سائوتھ کا بھی اضافی چارج دے دیاگیا۔ نارتھ کے سی ای او کے طورپر پندرہ لاکھ ماہانہ تنخواہ کے علاوہ سائوتھ کمپنی کے اضافی چارج پر چالیس فیصد مزید ادائیگی کی جا رہی ہے۔ اس طرح کل پچیس لاکھ میں یہ افسرماہانہ بنیادوں پر قوم کی خدمت کے لئے میسر آیا۔
اس قدر پیسے لینے والے افسران کے آنے سے اُمید بندھی کہ شاید منصوبے پر لاگت کم ہو جائے مگر حیرت اُس وقت ہوئی جب سابق وزیر اعلیٰ کے پاس ایک رپورٹ آئی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ صاف پانی پراجیکٹ کا تخمینہ بڑھ کر 121ارب روپے سے 191ارب روپے ہو چکا ہے۔ شہباز شریف نے اجمل کو حکم دیا کہ وہ 3 دن کے اندر اندر ’’تفصیلی رپورٹ جمع کروائیں‘‘ جس میں لاگت میں اضافے کی توجیہہ پیش کی جائے۔ مگر انہوں نے پھر بھی ٹھیکوں کے اجراء کو ’’افسردہ دل‘‘ کے ساتھ اور ’’ایک مرتبہ کا کیس‘‘ تصور کرکے منظور کردیا مگر شرط رکھی کہ وہ بذاتِ خود ’’منصوبے پر عملدرآمد کا گہرائی سے جائزہ لیں گے‘‘ اور یہ کہ تمام کاموں کی تیسرے فریق سے سخت جانچ پڑتال کروائی جائے گی۔کیا خاک جانچ پڑتال ہونی تھی۔ سب مل کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ (باقی آئندہ)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024