پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ایک قرارداد منظور کریں کہ یہ حکومت چل سکتی اور نہ ہی ملک چلا سکتی ہے، میاں نواز شریف اور میرے درمیان فاصلوں کی وجہ وہ غم ہیں جو انہوں نے مجھے دئیے ہیں جن میں سے ایک غم ان کے دور میں درج کی گئی منی لانڈرنگ کی ایف آئی آر ہے جو میں آج بھگت رہا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے درمیان ملاقات نہیں ہو سکتی۔
پاکستان کی سیاست میں دائمی دوستی ہوتی ہے نہ ہمیشہ کی مخالفت۔ ہمارے ہاں ’’سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا‘‘ سیاسی کلچر بن چکا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی مخالفت نوے کی دہائی میں ذاتیات اور دشمنی کی حد تک پہنچ چکی تھی۔ اس دوران سیاسی انتقام سکہ رائج الوقت بن چکا تھا مگر 2006ء میں میثاق جمہوریت نے دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ کو اتنا قریب کر دیا کہ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ایک دوسرے کو بھائی بہن کہتے تھے۔گذشتہ چند سال میں پی پی، ن لیگ کے مابین اختلافات تو سامنے آئے ہیں مگر 90کی دہائی والی شدت نہیں ہے۔ آصف زرداری نوازشریف سے ملاقات کرتے ہیں اور دونوں پارٹیوں میں اتحاد ہوتا ہے تو یہ انہونی بات نہیں ہو گی مگر یہ اتحاد جمہوری اصول اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ہو تو بہتر ہے۔ عدم اعتماد بھی جمہوری طریقہ ہے۔۔ تحریک انصاف حکومت احتساب کیلئے عزم و ارادے کا اظہار کرتی آرہی ہے۔ کسی نے کرپشن نہیں کی تو اسے خائف ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کرپشن کے ناسور نے معیشت کو ڈبو کے رکھ دیا۔ اپوزیشن کی طرف سے اس کاز میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے مطالبہ بلاامتیاز احتساب کا ہو جس سے انتقام کا تاثر نہ ابھرے۔ اپوزیشن اصولوں کی بنیاد پر سیاست کریگی تو عوام اسکے شانہ بشانہ ہونگے۔ ایسی سیاست کی اب گنجائش نہیں جس سے سیاسی ماحول آلودہ اور افراتفری پھیلے۔ اپوزیشن کو ایسے رویہ سے گریز کرنا چاہئے جس پر اپنے ادوار میں شکوہ کناں رہی ہے۔ ایسے رویوں کے باعث جمہوریت نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے جو ملک کے مفاد میں ہے نہ قوم کے اور نہ ہی خود سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کیلئے سودمند ہو سکتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024