بلوچستان حکومت نے وفاق کی جانب سے قبائلی علاقوں (فاٹا) کو تین فیصد حصہ دینے کیلئے قومی مالیاتی کمشن (این ایف سی) سے چاروں صوبوں کا حصہ کم کرنے کے فیصلے کی مخالفت کا عندیہ دیا ہے۔
آزادی کے فوراً بعد ہی فاٹا کو شمال مغربی سرحدی صوبہ میں ضم ہو جانا چاہئے تھا۔ قائداعظم کو قبائلی عوام کی پاکستان سے محبت پر مکمل اعتماد تھا۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے برطانوی راج کے دوران نصف صدی سے زائد عرصہ سے قائم رزمک چھائونی سے پاک فوج یہ کہہ کر واپس بلا لی، کہ فاٹا کے غیور عوام، وطن کی مغربی سرحد کی مکمل حفاظت کرنے کے ہر طرح سے اہل ہیں۔ قائد ملت لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد حکمران، اقتدار کو بچانے کی فکر میں لگ گئے اور فاٹا کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکے عوام کو پولیٹیکل ایجنٹوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔فاٹا وطن عزیز کا جزو لاینفک ہے،جس کے خیبر پی کے میں انضمام کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا اور جسے ہر محب وطن نے سراہا۔ گزشتہ پندرہ، سولہ سال، دہشتگردوں نے اس علاقے کو بری طرح تباہ کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس علاقے کو ملک کے دوسرے علاقوںکے برابر لانے کیلئے ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں ۔ ہسپتالوں ، تعلیمی اداروں اور سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے۔ لوگوں کو روزگار دینے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور ان علاقوں میں انتخابات کرا کے منتخب نمائندوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں پہنچایا جائے۔ بلوچستان حکومت کو بغاوت ایسی فضا پیدا نہیں کرنی چاہئے ،جو فیصلہ پارلیمنٹ میں قوم کے منتخب نمائندوں کی جانب سے کیا گیا ہے اس پر عمل کیا جائے۔ قومی مالیاتی کمشن بہرصورت ایک آئینی ادارہ ہے، اس کا فیصلہ بلاچوں و چرا تسلیم کیا جانا چاہئے۔ دیگر صوبے تین پرسنٹ دے رہے ہیں تو بلوچستان کو کیا امر مانع ہے۔ ویسے بھی اس طرح کا رویہ صوبائی منافرت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ افسوس تو ان لوگوں پر ہے جو این ایف سی کے فیصلے کو 18 ویں ترمیم سے ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ قرار دے کر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024