منگل ‘ 13؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 23اکتوبر 2018ء
15 دن میں مہنگائی کس وجہ سے ہوئی سب جانتے ہیں: صدر عارف علوی
سب لوگ کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں جانتے اس بات کا علم سب کو ہے مگر خدارا یہ کہہ کر جان نہ چھڑائی جائے کہ اس کی ذمہ دار سابقہ حکومت ہے۔ مہنگائی جب بھی ہوتی ہے سکہ رائج الوقت کی طرح ہوتی ہے۔ حکومت وقت کے سر پر اس کا سہرا باندھا جاتا ہے۔ اس وقت موجودہ حکومت کو آئے 2 ماہ سے زائد ہو چکے ہیں۔ مہنگائی وہ بیماری ہے جو موسمی بخار کی طرح روزانہ یا وقفے وقفے سے اپنا ٹمپریچر بدلتی رہتی ہے۔ بے شک پچھلی حکومت کے دور میں بھی مہنگائی کا شور اٹھتا تھا مگر آہستہ آہستہ گردوغبار کی طرح دوبارہ بیٹھ جاتا تھا۔ عوام کو کچھ ریلیف کا احساس ہوتا تھا موجودہ حکومت آتے ہی اپنے ساتھ مہنگائی کا جو سونامی لائی ہے اس نے تو جزیرہ بالی میں آنے والے زلزلے کی طرح پورے ملک میں اتھل پتھل مچا دی ہے۔ جس کو دیکھو رو رہا ہے۔ کیا اپنا کیا پرایا سب کو مہنگائی کا سونامی ڈبو رہا ہے۔
اس پر اب یہ کہنا کہ پچھلی حکومت مہنگائی کی ذمہ دار ہے غلط ہو گا۔ جو کچھ ہے اس پر قابو پانا تو حکومت کی ذمہ داری ہے اس لئے بطور صدر آپ حکمرانوں کو سمجھاتے بجھاتے رہیں کہ یہ ان کا کام ہے کہ وہ عوام کا جینا محال کرنے کی بجائے انہیں کو ریلیف دیں۔ تو جناب عوام کی نظریں آپ کی طرف ہیں۔ آپ نے بھی محسوس کر لیا ہے تو اور کچھ نہیں حکومت کو مشورہ ہی دے دیں کہ وہ ذرا عوام پر ہتھ ہولا رکھے۔
٭…٭…٭
لاہور کے گورنر ہاؤس میں تفریحی ٹرین چل پڑی
چلو جی یہاں بھی کمائی کرنے والوں نے کمائی کا ذریعہ ڈھونڈ لیا۔ گذشتہ روز گورنر ہاؤس کی سیر کو جانے والوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب انہوں نے وہاں تفریحی ٹرین دیکھی۔ باوجود اس کے کہ اس کا ٹکٹ بھی تھا۔ سینکڑوں سیر کرنے والوں نے مہنگے ٹکٹ خرید کر اس کی سیر کی۔ گورنر ہاؤس میں یوں تفریح کی تفریح اور کمائی کی کمائی ہونے لگی۔
اب امید ہے جلد ہی دیگر گورنر ہاؤسز اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز میں بھی اگر عوام کیلئے تفریحی ٹرین سروس شروع کی جائے تو وہاں بھی معقول آمدنی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ملک کو ویسے بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔ اشرافیہ سے تو کچھ نکلنا نہیں، ملنا نہیں۔ اب لے دے کے عوام سے ہی اس طرح 100 روپے ٹکٹ لگا کر ٹرین چلا کر رقم وصول کی جا سکتی ہے۔ جو یہ بڑے دل والے غریب لوگ ہنسی خوشی ادا کر دیتے ہیں۔
مزہ تو جب ہے کہ حکومت ان لاکھوں سرمایہ داروں سے بھی اس طرح کوئی انقلابی تبدیلی والی ٹرین چلا کر ٹیکس وصول کرے جو اپنی دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور ہر طرح کی سہولت حاصل کرنے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ ایک زمانہ تھا کراچی میں ٹرام چلتی تھی۔ اگر سندھ یا وفاقی حکومت تھوڑی سی محنت کر کے وہ نظام بحال کرے تو کراچی بھی رشک یورپ بن سکتا ہے۔ اسی طرح بڑے بڑے شہروں میں بھی اس طرح کی ٹرام چلا کر حکومت عوام کو یورپی ممالک کی طرح مناسب کرائے پر سفری سہولتیں مہیا کر سکتی ہے۔ جو تفریح کی تفریح اور سفر کا سفر ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی نوازشریف اور آصف زرداری کو قریب لانے کی کوششیں
ہماری سیاست میں یوں تو کچھ بھی بعید نہیں مگر پھر بھی اس وقت سیاسی میدان میں نواز شریف اور زرداری کا ملاپ آگ اور پانی کے ملاپ کے مترادف ہے۔ مگر حکومت کی طرف سے اپوزیشن جماعتوں کو ٹف ٹائم دینے کی وجہ سے یہ آگ اور پانی کا ملاپ بھی مولانا فضل الرحمٰن جیسے صاحب نظر شخص کے ہاتھوں ہوتا نظر آرہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن خود بھی حکومت کے ڈسے ہوئے ہیں۔ حکومت سے مراد تحریک انصاف لے لیں یا وزیراعظم عمران خان ایک ہی بات ہے۔
اب ان کی کوشش ہے کہ وہ نوابزادہ نصراللہ والی سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے آگ، ہوا، پانی، مٹی کو ملا کر متحدہ اپوزیشن کی بنیاد رکھ لیں تاکہ حکومت کو دن میں تارے نظر آنے لگیں۔ مگر حکومت والے بھی خاموش نہیں بیٹھے وہ بھی ہوا کا رخ دیکھ کر تُرت فیصلے کر رہے ہیں۔ جیسے ہی مولانا، میاں اور زرداری میں محبت کی پینگیں بڑھتی دیکھیں اس کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی والوں کے کیسوں کی فائلوں سے بھی مٹی جھاڑ کر ان پر ایکشن کی تیاری ہونے لگی۔جس سے ظاہر ہے پیپلزپارٹی والے جز بز تو ہوں گے۔ اب دیکھنا ہے پیپلزپارٹی والے یہ وار سہہ سکیں گے یا نہیں۔ میاں صاحب تو فی الحال ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں۔ مقدمے بھگت رہے ہیں۔
٭…٭…٭
رکشے والوں کا 100 یا 150 کا چالان کیا جائے: کراچی پولیس چیف
کراچیمیں ایک رکشہ ڈرائیور کی خودسوزی کے گزشتہ روز کے واقعہ کے بعد تو ٹریفک پولیس اہلکار چالان تو دور کی بات ہے‘ رکشہ کو روکتے ہوئے بھی ڈر رہے ہیں کہ کیا معلوم اس کا ڈرائیور کیا کر بیٹھے۔ قانون کی خلاف ورزی ہمارا شیوہ ہے۔ ٹریفک پولیس کا کام اس خلاف ورزی کو روکنا ہے۔ اس کام میں اگر وہ جرمانوں کیساتھ بولتے ہوئے محبت سے بھی کام لے تو ایسا کوئی سانحہ جنم ہی نہ لے۔ بے شک ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہایت خطرناک ہوتی ہے۔ ڈرائیور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔ گزشتہ روز ہی دیکھ لیں‘ ڈیرہ غازی خان میں کتنا المناک حادثہ ہوا۔ متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اب اس رکشہ ڈرائیور نے چالان ہوتا دیکھ کر غصہ میں خود کو آگ لگا لی۔ یہ بھی درست نہیں۔ مگر اس کی اس حرکت کی وجہ سے کراچی کے ہزاروں رکشے والوں کو چالان سے چند روز کا ریلیف مل گیا۔ اب وہ ٹریفک سارجنٹ جس نے چالان کیا تھا‘ بتا رہا ہے کہ اس نے چالان کیا ہی 150 روپے کا تھا۔ جو ہوا سو ہوا‘ اب حکومت کو چاہئے کہ وہ کراچی پولیس چیف کے بیان کے بعد پورے ملک میں رکشوں کے چالان کا یکساں ریٹ مقرر کرے۔ یہ مناسب بھی ہوگا مگر اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں ناتجربہ کار‘ کم عمر‘ نشئی اور بنا لائسنس کے ڈرائیونگ کرنے والوں کو سڑک پر گاڑی‘ موٹرسائیکل‘ ٹرک‘ بس یا رکشہ لانے کی اجازت قطعاً نہ دے کیونکہ یہ انسانی زندگیوں کا مسئلہ ہے اور تباہ حال‘ خستہ حال گاڑیوں کو بھی درست کئے بغیر چلانے کی اجازت نہ ہو۔