تقسیم پاک و ہند کے وقت ہمارے حصے میں چار صوبے آئے۔ مشرقی پاکستان کو الگ یونٹ تصورکیا گیا۔ ہندوستان نے انتظامی ضرورتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے موجود صوبوں میں سے مزید صوبے نکالے۔ مشرقی پنجاب کو بھی دو صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس طرح سلگتے ہوئے لسانی جذبات پراوس پڑ گئی۔ ادھر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ نوکر شاہی تھی۔ انگریز تو چلا گیا مگر اپنی مصنوعی اولاد پیچھے چھوڑ گیا۔ یہ لوگ کسی صورت بھی مرکز کا اکائیوں پر تسلط ختم کرنے پر تیار نہ تھے۔ انکے بزرجمہروں نے ایک نئی اختراع نکالی۔ چار صوبوں، سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا ایک صوبہ بنا دیا گیا ا ور اس کیلئے ون یونٹ کی اصطلاح وضع کی۔ مقصد ڈمبل (DUMBLE) پاکستان کا قیام تھا۔ مشرقی پاکستان ا ور مغربی پاکستان کی الیکٹورل طاقت کو برابر کر دیا گیا۔ سیاسی ترازو کے دو پلڑے۔
اس پرجو صدائے احتجاج بلند ہوئی وہ رفتہ رفتہ ایک گونج کی شکل اختیار کر گئی۔ لاہور کوون یونٹ کا مرکز بنایا گیا۔ بیوروکریسی کی لاعلمی کا یہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ انہوںنے بلوچستان کے دورافتادہ ضلع مکران سے (QUERY) کر ڈالی۔ مکران تربت (ضلعی ہیڈ کوارٹر) سے کتنا دور ہے؟ اس پر ڈپٹی کمشنر کی رگِ ظرافت پھڑکی اور اس نے جواباً لکھا جتنا پنجاب لاہورسے ہے ! اس جرأت ر ندانہ پر کئی جبینیں شکنِ آلود ہوئیں۔ بے شمار ماتھوں پر بل پڑے اور انہوں نے مکران کی فائل کو طاقِ نسیان میں ڈال دیا۔
اہل مکران کو جوتکالیف پیش آئیں اس کا تفصیلی ذکر میں نے بلوچستان پر لکھی کتاب ’’اجنبی اپنے دیس میں‘‘ کر دیا تھا۔ تربت کے اسسٹنٹ کمشنر کیدا جان محمد کی سنیارٹی کا مسئلہ تھا۔ وہ چھ مہینے لاہور رہا مگر نوکر شاہی نے گھاس نہ ڈالی۔ لاہور آمد پر جب میں نے حال پوچھا تو بھڑک اٹھے بولے، ’’مجھے کیدا جان نہ کہو‘ کھوتا جان کہو! انہوں نے مجھے معاشی طور پر اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ شاید بقیہ راتیں باغِ جناح میں گزارنا پڑیں۔ ’’وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے‘‘!
ون یونٹ کے خلاف جب چارسو تحریکوں نے زور پکڑا تو یحییٰ خان نے اسے توڑ دیا…چاروں صوبوں کی سابقہ حیثیت بحال کر دی گئی۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پُھونک پُھونک کر پیتا ہے، ایک طویل عرصے تک صوبوں کوتقسیم کرنے کا مطالبہ کہیں سے بھی نہ آیا۔ اب مزید صوبے بنانے کی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ خیبر پی کے میں اہل ہزارہ الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ ہزارہ وال کی زبان الگ ہے۔ یہ دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر آباد ہیں جبکہ خیبر پی کے کے باسی دائیں طرف بستے ہیں۔ ان کا رہن سہن بھی مختلف ہے
کراچی اور حیدر آباد کے اہل زبان، جناح پور بنانے کے خواہاں ہیں۔ بلوچستان میں بھی دبی دبی آوازیں آرہی ہیں کہ پختون ایریا کو الگ کر دیا جائے اہل مکران، آوارانکی بھی الگ شناخت ہے۔ وہاں بلوچی بولی جاتی ہے جو فارسی زبان کی کوکھ سے نکلی ہے۔ جھلوان اور ساروان میں بروہی زبان ہے جس کا سیکھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا جرمن یا فرانسیسی سیکھنا! ’’کلچر اور کلائمیٹ‘‘ بھی مختلف ہے۔ تاریخ بھی کافی حد تک الگ ہے۔ مچھلی اور کھجور کھانے سے (Human Metabolism) پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ جو اور سَتو سے مختلف ہیں۔ باایں ہمہ جب بھی انکے حق میں کوئی آواز اٹھتی ہے تو اسے مؤثر طریقے سے دبا دیا جاتا ہے… ’’مرسوں، مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ عزیزی بلاول بھٹو کا یہ نعرہ بڑا مقبول ہوا۔ جناح پور، کا لیڈر لندن میں اگر آخری گھڑیاں نہیں گن رہا تو ایڑیاں ضرور رگڑ رہا ہے۔ ہزارے کا پرچارک، بابا حیدر زمان کو تاریخ کے ا وراق میں ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں مینگل اور مری اس قدر قد آور شخصیتیں ہیں کہ ان کی آواز کے سامنے سب آوازیں دب جاتی ہیں۔
باقی رہ گیا پنجاب! غریب کی جورو، سب کی بھابی! ہر کوئی لٹھ لے کر اسکے پیچھے پڑ گیا ہے۔ گو اسکی آبادی بقیہ تین صوبوں کی آبادی کو ملا کر بھی زیادہ ہے، مگر اسکے حلق سے آواز نہیں نکلتی۔ گلے کی سرنگ میں چند گرداب کھا کر ڈوب جاتی ہے۔ اس کا جسم گو بڑا ہے مگر ذہن چھوٹا ہے۔ جس طرح گلیور کو بونوں نے زچ کیا تھا، اسی طرح اس کو بھی رسیوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ اب کالا باغ ڈیم ہی لے لیں۔ صرف پنجاب دشمنی میں یہ لوگ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اس کا نام لینا یہ گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور اسکے حق میں بولنے والوں کو قابل گردن زدنی۔ تین اسمبلیوں کی قراردادوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن بارہ کروڑ لوگوں کی آواز انہیں سنائی نہیں دیتی۔ درحقیقت یہ بارہ کروڑ نہیں بلکہ بائیس کروڑ لوگوں کے مفاد کا معاملہ ہے۔ ’’را‘‘ کے گماشتے ایک نہ ایک دن ضرور بے نقاب ہونگے!
الیکشن سے قبل سرائیکی صوبے کا مطالبہ بڑے زور و شور سے کیا گیا۔ حصول اقتدار کیلئے تحریک انصاف نے اس کو فوراً منظور کر لیا۔ نتیجتاً اس علاقے کے تمام ایلیکٹ ایبلز اس کی جھولی میں ڈال دئیے گئے۔ پیپلزپارٹی نے اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے فوراً اس کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق (ن) لیگ منقار زیر پر رہی ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ والا معاملہ تھا۔ لوگوں کے جذبات کو اس قدر بھڑکایا گیا اور اس نہج پر لایا گیا جہاں صوبے کی مخالفت سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گئی۔
اب جبکہ تحریک انصاف برسراقتدار آگئی ہے تو کیا واقعی وہ اپنے وعدے کو پورا کریگی؟ اس سے صاف مکر تو نہیں سکتی‘ البتہ ایک ابہام جان بوجھ کر چھوڑ دیاگیا ہے۔ ایک سرائیکی صوبہ بنے گا یا دو؟ ایک کی صورت میں اس کا ہیڈکوارٹر کہاںہوگا۔ ملتان یا بہاولپور۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اہل بہاولپور اپنے مطالبے سے دستبردار ہو جائینگے تو یہ اس کی بھول ہے۔ اسمبلی میں قرارداد منظور ہوتے ہی ایک طوفان کھڑا ہو جائیگا۔ مجوزہ صوبوں کے حامی مرنے مارنے پر تیار ہو جائینگے۔ حکومت کیخلاف سخت نعرہ بازی ہوگی۔ پہلے سے معاشی مشکلات میں گھری حکومت کیلئے سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ بہاولپور کا حق اس اعتبار سے بھی فائق ہے کہ ون یونٹ بننے سے پہلے بھی اس کا وزیراعظم ہوتا تھا۔ سید حسن محمود ! شاہ صاحب کی شخصیت دلکش رنگوں سے عبارت تھی۔ انہوں نے بھی گورنر جنرل غلام محمد کی طرح نوجوان انگریز سیکرٹری رکھی ہوئی تھی۔ غلام محمد تو مس روتھ کے ہاتھوں کیک کھاتا تھا۔ یہ کچھ پی بھی لیا کرتے تھے۔ انکے اس دور کی داستانیں نہایت دلچسپ ہیں جن کا ذکر ہم کسی مناسب وقت پر رکھ چھوڑتے ہیں۔
تحریک انصاف سیاسی طورپر گھاٹے میں رہے گی۔ ایک صوبہ بننے کی صورت میں اسے کافی ممبران اسمبلی کی مخالفت کا سامنا ہوگا۔ دو صوبے بن نہیں سکتے۔ جہاں سرائیکی ممبران ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے وہاں ان کے تیروں کا رخ حکومت کی طرف بھی ہوگا۔ اصل مسئلہ اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے۔ بالفرض ایک یا دو صوبے بن جاتے ہیں تو اس صورت میں کیا ہوگا؟ مرکزی پنجاب میں تحریک انصاف کیلئے حکومت قائم رکھنا مشکل ہو جائیگا۔ جہانگیر ترین نے جن ممبران اسمبلی کی مدد سے اکثریت حاصل کی ہے‘ ان کا تعلق سرائیکی بیلٹ سے ہے۔ مرکزی پنجاب میں (ن) لیگ کے ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد زیادہ ہے۔ اس سارے سیاسی عمل میں اس قدر گردوغبار اٹھے گا جس میں تحریک کی آب تاب اور چمک دمک گہنا جائیگی۔ جیو پالیٹیکس میں پنجاب کو جو اہمیت حاصل ہے‘ وہ پہلے بیان کی جا چکی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024