چین نے افغانستان میں فوجی اڈہ بنانے کی تردید کردی ہے لیکن اس سے دشمنوں کے پیٹ میں اٹھنے والے درد کی شدت کو محسوس کیاجاسکتا ہے۔ امریکہ اور اس کا ’موذی‘ مودی حواری چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کیخلاف عملاً اعلان جنگ کرچکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت کو پھونک پھونک کر قدم بڑھا رہے ہیں کہ ’ریاست مدینہ‘‘کی خالی خولی اصطلاح بھی مادر پدر آزادیوں کے طلب گاروں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ افغانستان میں فوجیوں کی تربیت اور چینی فوجیوں کے آنے کی درفنطنی ہانک کانگ کے ایک اخبار نے چھوڑی تھی۔ سازشی دنیا میں ہرکاروں، کارندوں اور ایجنٹوں کی کیا کمی ہے۔ میڈیا جدید دنیا کا ایک ایسا چابک ہے جسے طاقتور اور بااثر دولت مند ممالک رعونت میں ہر اس ملک اور فریق کی پیٹھ ادھیڑنے کیلئے برساتے ہیں جو مزاحمت پر آمادہ ہو۔ معاملہ اگر غریبوں کے امیر ہوجانے کا ہو تو گاؤں کے کایاں چوہدری کی طرح بہانے ہزار ڈھونڈ لئے جاتے ہیں۔ کیپٹل ازم کی بے رحم ’ہٹّی‘ بلاروک ٹوک اپنی کاروائی کئے جا رہی ہے۔ اندھی کمائی نے ظالموں کو مزید قوت فراہم کردی ہے اور غریب انسانوں کی دولت، آزادی اور زندگی گنتی کے چند ہاتھوں میں قید ہوکررہ گئی ہے۔
گراں خواب چینیوں کو جگانے والے مائوزے تنگ کی برسی بھی گزری۔ چین نے برس ہابرس کی ریاضت کی۔ اب مائوزے تنگ کے جانشین ثابت ہونیوالے صدر جناب ژی جن پنگ نے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ کا جوانقلاب آفریں خواب دیا ہے، وہ تعبیر پارہا ہے۔ یہ خواب غریب ممالک، تہی دست خطوں اور کیپٹل ازم کے بدمست ہاتھی کے ستائے لوگوں کیلئے امید کی نئی کرن بن کر طلوع ہوا ہے۔ چین کی معاشی طاقت میں روزافزوں اضافے نے مغرب کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کررکھا ہے کیونکہ انکے مدمقابل ایک معاشی قوت آن کھڑی ہوئی ہے۔ چین دراصل ان معاشی چوہدریوں کے راج کو اجاڑنے کا باعث بن رہا ہے جنہوں نے اپنے مدمقابل ہر مزاحمت کو کچل کر رکھ دیا۔ گزشتہ تین سوسال کی تاریخ بالخصوص اس ظلم وجبر اور استحصال کی گواہ ہے اور اسکے ابواب شاہد ہیں کہ کس طرح انسانوں کو اپنے بے دام غلام بنایا گیا اور اجتماعی غلامی کے چنگل میں پھانس کر کس طرح انکے وجود سے قطرہ قطرہ لہو بھی نچوڑ لیاگیا۔
وَن بیلٹ، وَن روڈ دراصل ایک بہت بڑا منصوبہ ہے، چین پاکستان اقتصادی رہداری یعنی سی پیک تو اس کا ایک حصہ ہے جو اس بڑے منصوبہ کا 16 فیصد ہے۔ اسے ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایاجارہا ہے۔ چین اور پاکستان کو نت نئے مسائل میں الجھانے کیلئے ہردم نئی تخریب سوچی جارہی ہے۔ ایک نہیں تو کسی دوسرے جال میں پھانسنے کی عیاری ہورہی ہے۔ امریکہ زخمی سانپ کی طرح پھنکار رہا ہے۔ کبھی بحر ساؤتھ چائنا کی سمندری حدود کے تعین کیلئے ’میں کون خوامخواہ‘ بن کر سامنے آتا ہے، کبھی خبر آتی ہے کہ امریکی بحریہ کا بڑا حصہ سائوتھ چائنا سمندر میں گشت پر آنکلا ہے، کبھی بھارتی ’بچہ جمورا‘ حرکت میں لایا جاتا ہے تو کبھی پاکستان کو آنکھیں دکھانے کا بیان اچھالا جاتا ہے اور نہیں تو داعش کی افغانستان میں موجودگی کا سازشی جال بْنا جاتا ہے۔ کٹھ پتیلوں کو حرکت میں لاکر من پسند ترنم چھیڑی جاتی ہے اور پاکستان اور مسلح افواج پر کیچڑ اچھالنے کی پلید ذہنیت دکھائی جاتی ہے۔کبھی غدار وطن حسین حقانی کے پیٹ میں سنکیانگ کے مسلمانوں کی ہمدردی کے مروڑ اٹھنے لگتے ہیں لیکن وہی بدبخت جمال خشوگی کو زندہ آرہ مشین پر بوٹی بوٹی کرنے پر خاموش رہتا ہے۔
ان سب کے ڈانڈے ایک ہی جانب جاملتے ہیں۔ ہانگ کانگ سے ظاہر ہونیوالی اس تازہ تکلیف کے پیچھے بھی دائمی مرض ہی چھپا ہے۔ ساو تھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی فوج کے ذرائع کے حوالے سے اس ’تکلیف‘ کا شافی جواب دیتے ہوئے کہاکہ چین واخان کے قریب اس مقام پر کیمپ بنارہا ہے جہاں دونوں ممالک کی سرحد ملتی ہے۔
چینی دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان ہْوآچْن یِنگ نے افغانستان کے اندر کیمپ بنانے کی خبر کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ خبر جھوٹ ہے۔ نہ کیمپ بنایا جارہا ہے اور نہ تربیت دینے کی خبر میں کوئی صداقت ہے۔یہ اس نوعیت کی پہلی خبر نہیں۔ اس سے پہلے بھی ایسے کئی وار ہوچکے ہیں جن میں دعویٰ کیاگیا کہ چین افغانستان میں اپنی فوج کی موجودگی چاہتا ہے۔ جنوری میں وزارت دفاع نے اسی نوعیت کی ایک خبر کی تردید کی تھی جس میں افغانستان میں فوجی اڈہ بنانے کی منصوبہ بندی کا جھوٹ گھڑا گیاتھا۔ صحافت کے نام پر مغرب کی ایجنٹی کرنیوالوں نے یہ بھی خبر کے نام پر چینی فوج کی گاڑیوں کا گشت بھی کرادیاتھا۔افغانستان میں عدم استحکام سے چین کو یہ تشویش رہی ہے کہ تشدد کا جھونکا کہیں اسکے گھروندے میں چنگاریاں گرانے کا باعث نہ بنے۔ اس ضمن میں اسلامی عسکریت پسندی کو سنکیانگ میں بے امنی دکھانے کے طورپر مسلسل ہوا دینے کی ایک عرصہ سے کوشش دیکھنے میں آرہی ہے اور حسین حقانی اس معاملے کو اچھال رہا ہے اس موضوع پر خود چینی دوستوں کو بھی احتیاط کرنا ہوگی کہ اس معاملے کو چین، پاکستان اور اسلام کے دشمن اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی مستقبل میں بھی کوشش کرسکتے ہیں۔
گزشتہ سال چین نے جبوتی میں فوجی اڈہ قائم کیاتھا جس پر امریکہ اور اسکے حواریوں کے سینے شدت جذبات سے سلگ رہے ہیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا لیکن سازشی دماغ ہمہ وقت سازشیں سوچنے میں مصروف ہے۔وزیراعظم عمران خان سے ملنے چینی وزیرخارجہ جناب وانگ ژی پاکستان آئے۔ چینی حکومت کی کیفیت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ سی پیک سے بڑھ کر وَن بیلٹ، وَن روڈ کے راستے میں کانٹے بچھانے کی جو کوششیں جاری ہیں، انکے مقابلے کیلئے انہیں مکمل اعتماد اور یکسوئی درکار ہے۔ عمران خان نے سی پیک منصوبہ جات کے حوالے سے ٹاسک فورس قائم کی ہے۔اس کیلئے وزیراعظم عمران خان کو براہ راست موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔
یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ ’ہاوس آف شریف‘ نے دھرنے کے دوران چینی صدر کی آمد کے موقع پر اور بعدازاں الفاظ سے جوآگ لگائی تھی، اس کا اثر زائل ہوتا۔ خیبرپختونخوا میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیردفاع پرویز خٹک کے بعض بیانات بھی اس وقت ’رنگ میں بھنگ‘ کا باعث بنے تھے۔ پھر بھلا ہو اس آئیڈیا کا، چینی حکومت نے وزیراعلی پرویز خٹک سمیت دیگر وزراء اعلیٰ کو خاص اہتمام سے دعوت دی۔ چین میں مہمان نوازی کے ساتھ انہیں بریفنگز دیں۔ صورتحال کا پورا نقشہ سامنے رکھا۔ عزائم، اقدامات اور مستقبل کے تمام پہلو دکھائے۔ تب ہمارے یہاں چلنے والی زبانوں کو کچھ سکون نصیب ہوا۔پاکستان کے فائدے کی جہاں بات ہو، کچھ ہرزاں نصیب ایسے ہیں جو لمحہ توقف کئے میدان میں آنکلتے ہیں۔ اپنے ’پاؤ‘ گوشت کی خیرات کیلئے پاکستان کا پورا ’بکرا‘ ذبح کرانے کی تاک میں رہتے ہیں۔ ایسی شرمسار روحوں کیلئے خیر کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
اس ساری کہانی میں عمران خان حکومت کا چینی وزیر خارجہ کی آمد پر عدم گرم جوشی کوئی نیک شگون نہیں۔ چینی سفیر انتخابات سے پہلے سے بنی گالہ کے چکر لگارہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے شہہ دماغوں کو کچھ غوروخوض کرنا چاہئے اور اس معاملے پر اپنی حکمت عملی اور سنجیدگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مناسب اقدامات ہوسکیں۔ یہ پاکستان اور اس خطے کے ساتھ ساتھ عالمی منظرنامے سے جڑی حقیقتوں کا پیچیدہ کھیل ہے۔ اس معاملے میں زیادہ احتیاط اور دانشمندی کا رویہ ہی پاکستان کے مفاد کے پیمانے کو پورا بھر سکتا ہے۔سی پیک کی ماں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ منصوبہ ہے۔ سی پیک کے نتیجے میں چینی سرمایہ کاری کا حجم سو ارب ڈالر تک جانا ہے۔ ساٹھ ارب ڈالر کی حد کو چھوا جاچکا ہے۔ اقتصادی زونز تعمیر ہونے ہیں۔ ریل اور شاہراہوں کا جال بچھنا ہے۔ ہنر مندوں سے لیکر تاجروں اور صنعتکاروں تک ایک لمباسفر ہے۔ بہت کام ہے۔ اس کو احتیاط، عقل مندی اور حکمت سے سمیٹنا ہوگا۔ اس معاملے میں بے احتیاطی سنگین جرم کے مترادف ہوگا۔
امریکہ اور اسکے کارندے پاکستان کا ہانکا کر رہے ہیں اصل تکلیف پاک چین اقتصادی راہداری CPEC کا تیزی سے مکمل ہونا ہے۔ چین کے گلی کوچوں میں سائیکل پر گھومنے والے ایک جوان سال سفارت کار نے اس کالم نگار کو بتایا تھا کہ سی پیک منصوبے کی کامیابی امریکی عزائم کی موت ہے اس لئے اس تجارتی شاہراہ کے کناروں پر تیسری عالمی جنگ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا سکتا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024