ایک شعر میں اگر غالبؔ کے بجائے ’’زرداری‘‘ جڑ دِیا جائے تو وہ یوں ہوگا…
’’ہیں اور بھی دُنیا میں، سخن وَر بہت اچھے
کہتے ہیں کہ زرداریؔ کا ہے ، انداز بیاں اور‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزراء ارباب عالمگیر، اُن کی اہلیہ عاصمہ عالمگیر اور پیر مظہرالحق وغیرہ کے خلاف ’’نیب ‘‘ کی طرف سے کرپشن کی تحقیقات کی خبر پر تبصرہ کرتے ہُوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرمین نے کہا کہ ’’صرف ایک پارٹی (پیپلز پارٹی) کے احتساب کے نتائج خطرناک ہونگے۔ مناسب یہی ہے کہ نیب اپنے دفاتر بند کرکے پیپلزپارٹی کے سیکرٹریٹ کو سنبھال لے‘‘۔ اگر نیب والے جنابِ زرداری کی پیشکش قبول کرلیتے ہیں تو نیب کے حکام /اہلکاروں اور پیپلز پارٹی کے عہدیداروں/ کارکنوں میں تو بہت زیادہ قُربت پیدا ہو جائے گی۔ وہ’’اِک مِکّ‘‘ ہو جائیں گے اور اِس طرح شاید عوام میں پیپلز پارٹی کی ساکھ پھر بحال ہو جائے۔ ایک پنجابی فلم میں ہیروئن کے گائے ہوئے گیت میں کہا گیا تھا کہ ؎
’’ مَیں تے ماہی انج مِل گئے
جِیویں ٹِچّ بٹناں دی جوڑی‘‘
آصف زرداری صاحب خود کو ’’ قائدِ عوام‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کا روحانی فرزند‘‘ کہا کرتے ہیں اور جنابِ بھٹو فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کو ’’ ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب جب فیلڈ مارشل صاحب کی صدارت میں سرگرم عمل پاکستان کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے تو انہوں نے ’’جنابِ ڈیڈی‘‘ کی خدمت میں تجویز پیش کی تھی کہ ’’ پاکستان کے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو کنونشن مسلم لیگ کا ضلعی صدر اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو سیکرٹری جنرل مقرر کردِیا جائے لیکن افسوس کہ فیلڈ مارشل صاحب نے مستقبل کے ’’قائدِ عوام‘‘ کی یہ تجویز منظور نہیں کی ورنہ پاکستان میں جمہوریت ، انتظامیہ اور پولیس بھی کب کی اِک مِکّ ہو چکی ہوتی۔!
جنابِ آصف زرداری کے والد محترم جناب حاکم علی زرداری 1970ء کے عام انتخابات میں جنابِ بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں موصوف خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد نہ صِرف آصف علی زرداری بلکہ حاکم علی زرداری بھی محترمہ کی پیپلز پارٹی میں شامل سمجھے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزارتِ عظمیٰ سے برطرف ہوئیں تو آصف زرداری صاحب کو نہ جانے کتنے پرسنٹ کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اُن کی گرفتاری کے بعد جناب حاکم علی زرداری نے کراچی اور پھر لاہور میں پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … ’’ بے نظیر بھٹو آصف زرداری کوگھسیٹ کرسیاست میں لائی تھیں حالانکہ آصف سے نکاح کے وقت بے نظیر بھٹو نے اُس کے سیاست میں حِصہّ لینے کی کوئی شرط نہیں رکھی تھی‘‘۔
اُس وقت جناب حاکم علی زردای کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اُن کے بیٹے کو سیاست میں گھسیٹ کر لانا پورے زرداری خاندان کے لئے ’’ باعثِ برکت‘‘ ہوگا اور نان گریجویٹ آصف زرداری بھی صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالیں گے۔ یہ الگ بات کہ جب حاکم علی زرداری صاحب اپنی زندگی کے آخری دِنوں میں "P.I.M.S" اسلام آباد میں زیرِ علاج تھے تو سکیورٹی حُکام کے مشورے پر صدر آصف علی زرداری والد محترم کی مزاج پرسی کے لئے اُن کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکے تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہرِ نامدار کو پیپلز پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا لیکن اُن کے قتل کے بعد اُن کی برآمدہ وصیت کے مطابق جنابِ آصف زرداری پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی آج 23 اکتوبرکو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ اور بعد ازاں پارٹی کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کی چوتھی برسی منا رہی ہے۔ جنابِ آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں اپنی ’’خوش دامن صاحبہ‘‘ کو ’’ مادرِ جمہوریت‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔ گزشتہ روز جناب آصف زرداری نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’مادرِجمہوریت بیگم نُصرت بھٹو ایک قومی اثاثہ ہیں جو پاکستانی تاریخ میں قد آور مقام رکھتی ہیں اور جمہوریت کے لئے اُن کی لازوال جدوجہد جمہوریت پسندوں کے لئے مِینارۂ نُور ہے ‘‘۔
جنابِ بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو جب لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تو پارٹی کا ایک راہنما اصول یہ مقرر کیا گیا کہ ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘۔ بھٹو صاحب کے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں نے پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں جنابِ بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین ’’منتخب‘‘ کرلِیا تھا۔ اُس کے بعد چیئرمین بھٹو نے پارٹی میں کبھی انتخابات نہیں کرائے اور جب انہیں نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کی سازش میں ’’ بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے گرفتار کِیا گیا تو انہو ںنے بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن مقرر کردِیا ۔ بعد ازاں بیگم صاحبہ نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو سیاسی طور پر پروان چڑھانے کے لئے پارٹی کی شریک چیئرپرسن مقرر کردِیا حالانکہ پارٹی کے دستور میں ’’ شریک چیئرمین‘‘ کا عہدہ ہی نہیں تھا۔
اپنی وزارتِ عُظمیٰ کے دوسرے دور میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے اپنی والدہ محترمہ کو ’’چیئرپرسن شِپ‘‘سے برطرف کرکے خود چیئرپرسن ’’منتخب‘‘ ہوگئیں تھیں ۔ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اس اجلاس میں بیگم نصرت بھٹو کو مدعو نہیں کِیا گیا تھا بلکہ انہیں کانوںکان خبر بھی نہیں ہونے دی گئی تھی۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سب کے سب ارکان چیئرمین بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے نامزد کردہ تھے۔ بھٹو صاحب کے بعد بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، بلاول بھٹو زرداری اور جناب آصف زرداری نے پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے۔ ہر دَور میں اوپر سے نیچے تک ہرعہدے پر نامزدگیاں ہوتی رہی ہیں اور جب تک سورج چاند رہے گا ۔ اِسی طرح ہی ہوتا رہے گا۔
چیئرمین بھٹو اور بھٹو خاندان کے چاہنے والوں نے کبھی غور ہی نہیں کِیا کہ ’’ غریبوں کے حق میں انقلاب‘‘ لانے کا وعدہ کر کے وفا نہ کرنے کی وجہ سے بھوکے ننگے اور بد حال عوام کی بد دعائوں سے ذوالفقار علی بھٹو، اُن کے دونوں بیٹوں، شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو غیر فطری موت نصیب ہُوئی۔ جِسے جمہوریت کے لئے شہادتوں کی داستان کہا جاتا ہے اب جمہوریت کی بحالی اور بقا کے لئے’’غازی‘‘ آصف علی زرداری کچھ نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی ’’ بھٹو‘‘ کا خطاب پانے کے بعد نانا جی کی پارٹی کو زندہ رکھنے کے لئے بلاول زرداری۔ جنابِ بھٹو کی صاحبزادی صنم بھٹو نے سیاست اور جمہوریت سے دور رہ کر اپنی جان بچالی ہے ۔ اُستاد بحرؔ نے کہا تھا؎
’’نیرنگی دُنیا کا تماشا ہے نمایاں
غفلت اِسے کہتے ہیں کہ عِبرت نہیں ہوتی‘‘
غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستان کے 60 فی صد عوام کو ’’جمہوریت‘‘ اور’’مادرِ جمہوریت‘‘ سے کیا واسطہ ہے؟۔ کبھی موقع ملا تو وزیراعظم نواز شریف کے عزیز اور پاکستان کے ’’ ہر دلعزیز‘‘ وزیرِ خزانہ جناب محمد اسحاق ڈار سے پوچھ کر بتائیں گے جنہوں نے دبئی میں مقیم اپنے بیٹے کو 40 لاکھ ڈالر کا ’’ قرض حسنۂ‘‘ دِیا اور سعادت مند بیٹے نے وہ قرض ادا بھی کردِیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38