پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ہے جو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کیونکہ لارج سکیل مینوفیکچررز سے لیکر چھابڑی فروشوں تک ہر کوئی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے بہت بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ معاملہ صرف صنعتوں کی بندش تک ہی محدود نہیں بلکہ توانائی کے بحران نے اقتصادی نشوونما کی رفتار میں نمایاں سستی، غیرملکی اور ملکی سرمایہ کاری میں کمی، بڑے پیمانے پر بے روزگاری، بدامنی، امن و امان کی بدتر صورتحال اور خوفناک حد تک بڑھے ہوئے سٹریٹ کرائمز سمیت مزید کئی سنگین مسائل کو جنم دیا ہے پنجاب نہ صرف ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ معاشی حوالے سے بھی یہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ برآمدات سے وابستہ سب سے زیادہ صنعتیں یہاں پر ہیں، پاکستان کے جی ڈی پی میں پنجاب کا حصہ 65%ہے، خدمات کے شعبے میں اس کا حصہ 64.5%، زرعی پیداوار کے شعبے میں اس کا حصہ 61.5%ہے جبکہ حکومت کو سب سے زیادہ محاصل بھی یہیں سے ملتے ہیں لیکن اس قدر اہمیت کے باوجود بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا سب سے زیادہ سامنا بھی پنجاب ہی کو کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک محتاط اندازے کےمطابق توانائی کے بدترین بحران کی وجہ سے اب تک صرف چھوٹے اور درمیانے درجے کے 1300یونٹس بند اور 330,000 افراد بے روزگار ہوئے جو اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے کیا کیا جتن نہ کرتے ہونگے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اکثر مسائل کی جڑ توانائی کا بحران ہے۔کسی ایک حکومت کو اس کا موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ گذشتہ تقریباً چار دہائیوں سے ملک میں ایک بھی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا جو سستی اور وافر بجلی کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔اندازاً ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 26فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ کم ہوچکی ہے کیونکہ ڈیم سِلٹ سے بھر رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ تربیلا ڈیم 2030ءتک جبکہ منگلا ڈیم 2050ءتک سِلٹ سے بھر جائینگے جس کے معنی ہیں کہ اگر اب بھی ڈیم تعمیر نہ بنے تو پھر تباھی میں رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائےگی۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ ڈیم تعمیر کرنے کیلئے سرمایہ کہاں سے آئے گا کیونکہ ہم پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کم و بیش 10.5ارب ڈالر جبکہ بھاشا دیامیرڈیم کی تعمیر پر تقریباً 12ارب ڈالر خرچ ہونگے۔ گذارش ہے کہ اگر خلوص نیت سے منصوبہ بندی کی جائے تو ڈیموں کی تعمیر کیلئے فنڈز کا بندوبست کرنا کوئی ناممکن کام نہیں۔
پاکستان کوئلے کے185ارب ٹن سے زائد ذخائر ہیں جن سے آئندہ 100سال تک 60ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ امریکہ بجلی کی کل پیداوار کا 42%سے زائد حصہ کوئلے کے ذریعے پیدا کررہا ہے۔ بالخصوص چین اس سلسلے میں بہت کام کررہا ہے اور 2020ءتک کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے 600پلانٹ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جن میں سے ہر پلانٹ سے 300میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی جبکہ پاکستان میں فی الحال صرف 1%بجلی کوئلے سے پیدا کی جارہی ہے۔ بجلی کا بڑا حصہ تھرمل ذرائع سے پیدا کرنے کی وجہ سے آئل امپورٹ بل پاکستان کی درآمدات کا سب سے بڑا حصہ ہے ،توقع کی جارہی ہے کہ اگلے مالی سال کے دوران پاکستان کا آئل امپورٹ بل 17ارب ڈالر سے بھی بڑھ جائےگا ۔
فرض کرلیں کہ ہنگامی بنیاوں پر کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں اور دو سال بعد اگر زیادہ نہیں تو بجلی کی کُل پیداوارکا 50% کوئلے سے پیدا کیا جاتا ہے تو آئل امپورٹ بل کی مد میں کم از کم پانچ ارب ڈالر سالانہ بچائے جاسکتے ہیں۔ یعنی صرف دو سال میں کالاباغ ڈیم اور اگلے تین سالوں میں بھاشا دیامیر ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈز کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔ ان پانچ سالوں کے بعد یہ آئل امپورٹ بل میں کٹوتی کے بعد بچنے والے اربوں ڈالر ز سے ملک کی تعمیر وترقی کے درجنوں منصوبے مکمل کیے جاسکتے ہیں جبکہ صنعتوں کو کوئلے اور ہائیڈل ذرائع سے انتہائی سستی بجلی ملے گی۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کچھ عرصہ قبل تمام تھرمل پلانٹس کو کوئلے سے چلانے کا اعلان کیا جوبہت خوش آئند تھا لیکن آئل لابی سمیت کچھ اور نادیدہ حلقے اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں جس کا ثبوت تھرکوئلے کے استعمال کی صورت میں 1.14ارب ڈالر کا قرضہ منسوخ کرنے کا عندیہ دینا ہے۔ توانائی کی پیداوار کیلئے کوئلے کے استعمال کا فیصلہ کرکے حکومت نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے جس سے اُسے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے کیونکہ یہ منصوبہ ملک کو درپیش سنگین بحران یکے بعد دیگر ختم کردے گا۔جہاں تک گیس کے بحران کا تعلق ہے تو گذشتہ دنوں اعلان کیا گیا تھا کہ سندھ کے ضلع دادو میں گیس کے 400بلین کیوبک فٹ ذخائر دریافت ہوئے ہیں لیکن مبینہ طور پر معاہدوں کو حتمی شکل نہ ملنے کی وجہ سے ان ذخائر سے استفادہ کرنے میں تاخیر ہورہی ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ مزیدبرآںجن آبی منصوبوں پر کام جاری ہے اُن کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اگر فنڈنگ کے مسائل آڑے آرہے ہیں تو اپنے اخراجات کم کرے۔ ایک اہم قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کرسکتے ہیں۔ اگرچہ پنجاب حکومت نے توانائی کی پیداوار کے منصوبوں کا اعلان تو کررکھا ہے لیکن ان پر کیا پیش رفت ہورہی ہے اس بارے میں زیادہ معلومات میسر نہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ پنجاب حکومت توانائی کی پیداوار کے منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرے تاکہ تمام مسائل کی جڑ توانائی کے بحران کو جڑ سے اکھاڑا جاسکے ، اقتصادی و معاشی خوشحالی آئے اور ہم بھی خود مختار ممالک کی طرح خودانحصاری حاصل کرکے سر اٹھاکر جی سکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024