عدلِ اجتماعی(social justice)کے بغیر سماج کو پیچیدگیوں، بے چینی و بد امنی اور انتشار سے بچانا ممکن نہیں ہے۔معاشی عدمِ توازن اور محروم طبقات کے مسائل سے چشم پوشی معاشرے کا سب سے بڑا روگ ہے۔ معاشرے کی ساری ٹوٹ پھوٹ ، لوگوں کے مزاج میں عود کر آنےوالے ہیجان و اضطراب اورتیزی سے بڑھتی ہوئی عدمِ برداشت کی کیفیت ، داخلی خلفشار ، دہشت گردی کے رجحانات کو پختہ کرنے والی انتہا پسندی کے پیچھے کارفرما عوامل کا کھوج لگائیں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ یہ سب شاخسانہ ہے عدلِ اجتماعی کے فقدان کا۔
مراعات یافتہ اور محروم طبقات میں مسلسل وسیع اور گہری ہو جانے والی خلیج کو پاٹنے کی کوئی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کبھی کی ہی نہیں گئی جس سے معاشرے کے تمام افراد میںیہ احساس و شعور اجاگر ہوتا کہ ملک کے تمام شہری عزت و توقیر اور حقوق میں برابر ہیں۔اس خلیج کے ایک طرف اٹھارہ کروڑ عوام کھڑے ہیں اور دوسرے کنارے پر سندھ کے وڈیرے، پنجاب کے جاگیر دار، بلوچستان کے نواب اور سردار یا بڑے بڑے کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالک صنعت کار اور سرمایہ دار ہیں۔ سیاست اب بجائے خود زراندوزی کا بہت بڑا ذریعہ اور سرمایہ کاری کا ایک حد درجہ نفع بخش میدان بن چکی ہے۔ اس میں بیس تیس لاکھ invest کر کے کروڑوں کی کمائی یقینی سمجھی جاتی ہے۔ غریب اور بے وسیلہ لوگوں کی بے بضاعتی کی وجہ سے سیاست ان کیلئے ایک ممنوعہ وادی ہے۔ اس پرنو ابوں، سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں ، پرانے با اثرسیاسی خاندانوں، پیروں اور مخدوموں کی اجارہ داری ہے۔ریٹائرڈ فوجی افسر اور بیوروکریٹ اکثر بالواسطہ اس میں دخیل رہتے ہیں یا کچھ براہِ راست اس میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دولت انہی طبقات کے درمیان گردش کرتی ہے۔
ان طبقات کی بے حِسی اور سنگ دلی کا یہ عالم ہے کہ غریب عوام کی غربت بھی ان کیلئے موجبِ لطف و تفریح بنتی ہے۔ انکو نہ وعدے توڑنے میں کوئی عار محسوس ہوتا ہے اور نہ مکر اور منافقت کے مظاہروںمیں کوئی شرم آتی ہے۔جمہوریت کا راگ بہت تواتر اور بلند آہنگی سے الاپتے ہیں لیکن جمہور یت کی روح سے بے خبر ، اسکے اصولوں سے منحرف اور اسکے عملی تقاضوں سے بے نیاز رہتے ہیں۔ دولت کے بل پر یہ طبقے پارلیمنٹ کو اپنی باندی بنا لیتے ہیں۔اپنے تموّل اور اثرورسوخ کے زور پر عدل کو بھی یہ مفلوج بنائے رکھتے ہیں۔نہ خالص اسلامی نظام ان کو گوارا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل جمہوری روایات کی پاسداری ہی انکے مزاج سے لگا کھاتی ہے، کیوں کہ دونوں اجتماعی عدل کا تقاضا کرتے ہیں۔دونوں میں آزادی، عدل،معاشی توازن و ہمواری،سماجی برابری، حقوقِ انسانی، عزت و وقار، ترقی کے مساوی مواقع اور تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کو لازم قرار دیتے ہیں۔ حکمرانوں اور بالادست قوتوں کے اعمال پر دونوں نظر رکھتے ہیں اور احتساب کا کڑا نظام دونوں میں پایا جاتا ہے۔
ہمارے ساتھ المیہ یہ ہُوا کہ قائد اعظمؒ کی رحلت کے بعدیہ ملک نظریاتی طور پر ان اصولوں اور آدرشوں سے بہت دور کر دیا گیا جن کی روشنی میں اس کا قیام عمل میں آیا تھا اور جن کو اس میں سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کی تشکیل میں رہنما بننا تھا۔اسلام اور جمہوری روایات دونوں سے مجرمانہ غفلت ہی نہیں بلکہ کھلی بغاوت کا ثبوت دیا گیا۔ محروم اور مراعات یافتہ طبقات میں فرق کو کم کرنے کے کوئی پالیسی نہ بنی۔ اس کام سے مجرمانہ روگردانی کے نتیجے میں یہ فرق روزفزوں رہا۔ یہ حقیقت فراموش کر دی گئی کہ عدل ہی وہ مو¿ثر عامل ہے جو عوامی ترقی و خوشحالی اور ایک روشن مستقبل کا ضامن بن سکتاہے۔
اسی کے ذریعے محنت و مشقت کے جذبے کو مہمیز لگتی ہے ،ذہانت و قابلیت کا جوہر کو نمو پاتا اورکام کرنےوالوں کی تخلیقی قوتوں اور پیداواری صلاحیتوں کو فروغ ملتا ہے۔اگر معاشرے میں تیزی سے پھیلتے ہوئے تخریبی میلانات کے اسباب کا کھوج لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ظلم ان کو پروان چڑھاتا ہے اور عدل سے انکی اصلاح ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ عدل صرف عدالتوں میں منصفانہ فیصلوں اور جھگڑوں کو چکانے کا نام نہیں ہے۔اس کا لوگوں کے ضمیر اور شعور میں راسخ ہونا لازم ہے ۔ضروری ہے کہ حاکم و محکوم، اعلیٰ و ادنیٰ، افسر و ماتحت، مالدار و نادار، صاحب ِ اثر اور بے نوا سب اپنے رویے سے اپنی ذات کے اندر عدل و انصاف کی روایت کو اجاگر کریں۔
ہم یہ روایت مستحکم نہ کر سکے اور عدل کے امکانات پرلوگوں کایقین اٹھ گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ سماجی برائیوں پر قابو پانا محال ہو گیا ہے۔ دولت، طاقت اور اثر و رسوخ کے نشے نے معاشرے میں ماتحتوں اور کمزوروں پر تشدد کے کلچر کو رواج دیاہے ۔ آج یہ جو چوریوں ، ڈاکوں، بھتوں، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کی صورت میں بوتل سے نکلے ہوئے جرائم اور قانون شکنی کے جِن نے ہمارے معاشرتی وجود کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے تو یہ طاقت اور اقتدار اور اثر و رسوخ والوں کی بے مہاری کا ایک حد درجہ منفی ردِ عمل ہے۔بے شمار جرائم کے پیچھے یہی ردِ عمل کارفرما دیکھا جا سکتا ہے۔
اسلام کی نظر میں زیر دست آزاری، کمزوروں کی حق تلفی، محروموں کی چیخوں سے بے اعتنائی اور مظلوموں کی آہوں سے اعراض غیر انسانی اور سنگ دلانہ رویہ ہے۔یہ رویہ کبھی اسلم مڈھیانہ بن کر سامنے آتا ہے تو کبھی وحیدہ شاہ کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔کبھی یہ بیکری کے ملازمین پر تشدد میں ظاہر ہوتاہے توکبھی اپنی زمینیں بچانے کیلئے سیلابی پانی کا رُخ غریب اوربے نوا آبادیوں کی طرف موڑنے کی سفاکانہ روش سے سامنے آتا ہے۔ کبھی یہ ایک صوبے اور ایک شہر میں سیاسی قوتوں کے اپنا اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے کارکنوں اور حامیوں کے سفاکانہ قتل کا لامتناہی سلسلہ بن کر ابھرتا ہے تو طاقتور عناصر کی پشت پناہی میں متحرک مافیا ﺅں کے ذریعے عوام کی زندگی اجیرن کر دینے والی وارداتوں میں نظر آتا ہے۔ا سلام کی تعلیمات کی روشنی میں قائم ہونے والے معاشرے کے اندر ایسی بے مہری اور شقاوت قلبی کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔معاشرے میں اگر رحم و ہمدردی اور تعاون و تعلق میں اس درجے کمی آ جائے جیسی ہم ا کثر اہلِ ثروت لوگوں میں دیکھتے ہیں توشریعت اسلامی کے مطابق ایسے لوگوں کے ساتھ قانون کے آہنی ہاتھ استعمال کرنا جائز ہے۔
امام ابنِ حزمؒ نے اور امام شاطبی ؒ نے قرآن و احادیث اور آثارِ صحابہ سے جو معاشی نظریات اخذ کیے انکے مطابق اگر ایک گروہ کے پاس کھانے پینے کی وافر اشیا موجود ہوں اور دیگر کچھ لوگوں کی محرومی اور افلاس اس درجے پر پہنچ جائے جہاں جان بچانے کیلئے اضطرار میں مردار یا خنزیر کا گوشت کھانے کی نوبت آ جائے تو مردار اور خنزیر کا گوشت کھانے کے بجائے اپنے پاس اشیائے خور و نوش بچا کر رکھنے والوں سے لڑ کر ان سے وہ مال چھین لینا جائز ہے۔ اس لڑائی میں اگر بھوکا مارا جائے تو مالدار پر اس کا قصاص واجب ہو جاتا ہے اور اگر مالدار مارا جائے تو اس پر دہری لعنت برسے گی ۔ اس کا شمار طائفہِ باغیہ میں ہوگا۔ عدلِ اجتماعی کے قیام میں اگر ہم مسلسل ناکام رہے اور مراعات یافتہ اور محروم طبقات میں فرق کو کم کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہ کی گئی تو وہ وقت بہت جلد قریب آ لگے گا جب مفلس اور نادار اس امر پر مجبور ہو جائیں گے کہ دولت اور طاقت کے نشے میں ڈوبے ہوئے بے درد لوگوں سے ان کاسب کچھ چھین لیں ۔ حسنی مبارک، زین العابدین علی اور کرنل قذافی کا انجام کوئی صدیوں پرانی نہیں، ابھی کل کی بات ہے۔سو اہلِ نظر زور دیجیے اس امر پر کہ جس قدر جلد ممکن ہو عدلِ اجتماعی کو ہمارے معاشرے اور ہماری مملکت کے درد کا درماں بنایا جائے۔حضرت علیؓ سے منسوب اس قول کو فراموش نہ کیجیے کہ کفر پر تو ایک ریاست برقرار رہ سکتی ہے لیکن اگر اس میںظلم پھیل جائے تو وہ اپنی بقا کا جواز کھو بیٹھتی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38