ماہرین کی رائے ہے کہ شوہروں سے فرمائش کرنے کا بہترین وقت شام چھ بجے ہے۔
مرد جب صبح کو اٹھتا ہے تو پھر اٹھتا ہی چلا جاتا ہے اور اسکی نظر پورے دن میں اپنی مردانگی ثابت کرنے پر جمی رہتی ہے‘ پھر وہ گھر سے بھی اس دوران باہر ہوتا ہے‘ غم روزگار‘ یا غم یار بھی اسکے گلے کا ہار بنا رہتا ہے۔ بہرصورت ہر مرد سارا دن کسی نہ کسی اچھے برے ’’یب‘‘ میں پڑا رہتا ہے اور اسے گھر‘ گھر والی بھول بھلا جاتی ہے جب شام کو وہ ’’کھے‘‘ کھا کر واپس آتا ہے تو سکھ کا سانس لیتا ہے کہ وہ اپنی چھت کے نیچے اپنے بیوی بچوں میں لوٹ آیا ہے۔ بیوی گرم گرم چائے کا کپ لئے جب کیٹ واک کرتی ہوئی آتی ہے تو شوہر کا یہ شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے…؎
دیکھو تو دلفریبی ٔ انداز نقشِ پا
موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی
شوہر شوفر بن جاتا ہے اور اشارے کا منتظر‘ شام ہوتی ہے تو شوہر کی بھی شام ہو جاتی ہے اور ’’ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ‘‘ کے مصداق اگر بیوی تھوڑی سی بھی کمر لچکا کر اور آواز کو غیرت ناہید بنا کر شوہرِ نامدار سے کوئی بھی مطالبہ کر دے تو سمجھو کہ کڑّکی میں شوہر پھنس گیا۔ شام کو شوہر کے سامنے اور کوئی خاتون دیکھنے ترسنے کیلئے کیلئے بھی نہیں ہوتی تو اسے اپنی بیوی کی قدر آجاتی ہے کیونکہ بیوی تو اسکی دسترس میں ہوتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
مشرف کہتے ہیں کہ مخالفین ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے مناظرہ کرلیں۔ نواز شریف بوکھلاہٹ میں میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں‘ اپنے دور میں وقت ملتا تو کالاباغ ڈیم منصوبے پر عمل کرتا۔
مایہ ناز سیاسی جوکر مشرف بغیر ٹکٹ کے پوری قوم کو ہنساتے رہتے ہیں‘ انکی سیاسی زندگی میں اس سے بڑا کام اور کوئی نہیں‘ جن خوبصورت خوبرو منصوبوں پر جام بدمست وہ کام کرتے رہے اگر ان سے وقت بچتا تو ہم آپکو یقین دلاتے ہیں کہ وہ کالاباغ ڈیم تعمیر کرا دیتے کیونکہ تب انکے پاس اتنی طاقت تھی کہ وہ آسانی سے سیاسی اختلافات کو بلڈوز کرتے ہوئے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی طاقت کہیں اور استعمال کر ڈالی اور کچھ بچ بھی رہی تو اسے ان پر صرف کر دیا جو آج ان کا ذکر آتے ہی کہہ دیتے ہیں ’’مٹی پائو‘‘۔ باقی جہاں تک مناظرہ کرنے کا تعلق ہے تو وہ اس میدان کا رخ نہ کریں‘ ورنہ ان کا ’’رخِ زیبا‘‘ اور واضح ہو جائیگا۔ نواز شریف ایک بڑی سیاسی پارٹی کے قائد ہیں‘ انکے بارے میں تو ان کو بوکھلاہٹ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے اتنا ہی کہہ دینا چاہیے‘ ’’چہ نسبت خاک را بعالمِ پاک‘‘ ان کیلئے بہترین راستہ یہی ہے کہ سلمان رشدی کی طرح بیرونی دنیا میں بیریوں کے بیر چنیں اور لطف اندوز ہوں‘ وہ ایک سپاہی تھے‘ شومئی قسمت کہ وہ اس ملک کے سربراہ بن گئے۔
قدرت نے انہیں موقع دیا مگر انہوں نے اسے اس طرح سے ضائع کر دیا کہ اس طرح تو کوئی گھر کا کوڑا بھی ضائع نہیں کرتا۔ اگر انہیں عاقبت یاد ہے تو اپنا گیٹ اپ بدل کر صدقِ دل سے اللہ اللہ کریں‘ اس لئے کہ انکی فردِ جرم بڑی طویل ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے‘ پراجیکٹس کی شفافیت کیلئے حکومت سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھائے‘ گوادر سے چین پائپ لائن تعمیر کرنے کی ہدایت کی۔
اچھی بات بہرحال اچھی ہوتی ہے‘ اگر صدر اس ملک کو سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھانے کی بات کر رہے ہیں اور ہدایات جاری کر رہے ہیں تو یہ فی الواقع ایک اچھا قدم ہے جس کی تحسین کرنی چاہیے اور پھر اسکے باوجود کہ اس وقت امریکہ پاکستان پر چھانے کی کوشش میں ہے‘ یہ ہدایت جاری کرنا بڑی ہدایت یافتہ بات ہے کہ گوادر سے چین پائپ لائن تعمیر کی جائے۔ وہ جانتے ہیں کہ گوادر پر امریکہ کی نظر ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ چین کا گوادر میں کوئی عمل دخل ہو۔ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ اب امریکہ کا زاویہ بلوچستان بن چکا ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ صدر کے کئی کاموں میں سقم بھی ہونگے یا انکی ذات پر اعتراضات بھی‘ مگر وہ محب وطن ہیں اور موقع پر کارروائی کرنے سے چوکتے بھی نہیں۔ پاکستان میں امریکہ نے جو اودھم مچا رکھا ہے اور بلیک واٹر اور ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکہ کو جو چھوٹ دے رکھی ہے‘ انکی جانب بھی توجہ دیں‘ بہرصورت صدر کی یہ بات قابل ستائش ہے کہ وہ بتدریج چین کی طرف توجہ بڑھا رہے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی جس نرمی سے اداروں کے تصادم سے بچنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اس میں صدر کی سوچ‘ ہدایت اور مشورہ بھی شامل ہے البتہ عوامی مسائل حل نہیں ہو رہے۔ مہنگائی اور بالخصوص مہنگی بجلی عوام کیلئے درد سر ہے۔
٭…٭…٭…٭
افغانستان میں امریکہ اور اتحادیوں کے ایک دوسرے سے بے پروا 10 گروپ برسر پیکار ہیں‘ کوئی مشترکہ انچارج ہے نہ کوئی کسی کا ماتحت‘ کوئی دوسرے کو نہیں بتاتا کہ وہ کیا اور کیوں کر رہا ہے؟
افغانستان‘ امریکہ کے منہ میں چھچھوندر ہے‘ جسے وہ نگل سکتا ہے نہ اگل سکتا ہے البتہ اتنا ہو رہا ہے کہ امریکہ اسکے اتحادیوں کی یہ حالت ہے…ع
ایں راہ کہ تو میروی اے اعرابی بترکستان است
(یہ راستہ جو تم چل رہے ہو‘ یہ تو منال تک جاتا ہی نہیں)
کیسی بوالعجبی ہے کہ امریکہ نے ہنستے بستے افغانستان کو تباہ و برباد کرکے آج یہ مقام پایا کہ افغانستان میں اسکے اتحادی طوائف الملوکی کا شکار ہیں۔ کسی کو خبر نہیں کہ وہ یہ جنگ کیوں لڑ رہے ہیں جبکہ حاصل بھی کچھ نہیں ہو رہا۔ عراق میں بھی یہی کچھ ہوا اور امریکہ آج وہاں پھنسا ہوا ہے۔ نہ آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے‘ شاید تنگ آکر اس نے اب پاکستان کا رخ کرلیا ہے جو کہ ایک ایٹمی قوت ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ وہ یہاں بھی نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے کا بے مقصد کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ اوباما صاحب کو اس رپورٹ کا بغور مطالعہ کرلینا چاہیے جو جنرل ڈگلس نے بش کو تیار کرکے دی تھی اور اسے پردہ راز میں رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
اقبال نے کہا تھا‘ ’’اسکے کوہ و دمن سے ملا کو نکال دو‘‘ مٹھی بھر طالبان جو اسلام کا اصل زر ہیں‘ انہوں نے ایک سپرپاور ہی کو نہیں‘ اسکے اتحادیوں کو بھی ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں مگر یہ ہٹ دھرمی ہے حملہ آوروں کی کہ وہ پھر بھی لگے ہوئے ہیں جو انکی اصل نیت کی عکاسی ہے۔
مرد جب صبح کو اٹھتا ہے تو پھر اٹھتا ہی چلا جاتا ہے اور اسکی نظر پورے دن میں اپنی مردانگی ثابت کرنے پر جمی رہتی ہے‘ پھر وہ گھر سے بھی اس دوران باہر ہوتا ہے‘ غم روزگار‘ یا غم یار بھی اسکے گلے کا ہار بنا رہتا ہے۔ بہرصورت ہر مرد سارا دن کسی نہ کسی اچھے برے ’’یب‘‘ میں پڑا رہتا ہے اور اسے گھر‘ گھر والی بھول بھلا جاتی ہے جب شام کو وہ ’’کھے‘‘ کھا کر واپس آتا ہے تو سکھ کا سانس لیتا ہے کہ وہ اپنی چھت کے نیچے اپنے بیوی بچوں میں لوٹ آیا ہے۔ بیوی گرم گرم چائے کا کپ لئے جب کیٹ واک کرتی ہوئی آتی ہے تو شوہر کا یہ شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے…؎
دیکھو تو دلفریبی ٔ انداز نقشِ پا
موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی
شوہر شوفر بن جاتا ہے اور اشارے کا منتظر‘ شام ہوتی ہے تو شوہر کی بھی شام ہو جاتی ہے اور ’’ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ‘‘ کے مصداق اگر بیوی تھوڑی سی بھی کمر لچکا کر اور آواز کو غیرت ناہید بنا کر شوہرِ نامدار سے کوئی بھی مطالبہ کر دے تو سمجھو کہ کڑّکی میں شوہر پھنس گیا۔ شام کو شوہر کے سامنے اور کوئی خاتون دیکھنے ترسنے کیلئے کیلئے بھی نہیں ہوتی تو اسے اپنی بیوی کی قدر آجاتی ہے کیونکہ بیوی تو اسکی دسترس میں ہوتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
مشرف کہتے ہیں کہ مخالفین ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے مناظرہ کرلیں۔ نواز شریف بوکھلاہٹ میں میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں‘ اپنے دور میں وقت ملتا تو کالاباغ ڈیم منصوبے پر عمل کرتا۔
مایہ ناز سیاسی جوکر مشرف بغیر ٹکٹ کے پوری قوم کو ہنساتے رہتے ہیں‘ انکی سیاسی زندگی میں اس سے بڑا کام اور کوئی نہیں‘ جن خوبصورت خوبرو منصوبوں پر جام بدمست وہ کام کرتے رہے اگر ان سے وقت بچتا تو ہم آپکو یقین دلاتے ہیں کہ وہ کالاباغ ڈیم تعمیر کرا دیتے کیونکہ تب انکے پاس اتنی طاقت تھی کہ وہ آسانی سے سیاسی اختلافات کو بلڈوز کرتے ہوئے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی طاقت کہیں اور استعمال کر ڈالی اور کچھ بچ بھی رہی تو اسے ان پر صرف کر دیا جو آج ان کا ذکر آتے ہی کہہ دیتے ہیں ’’مٹی پائو‘‘۔ باقی جہاں تک مناظرہ کرنے کا تعلق ہے تو وہ اس میدان کا رخ نہ کریں‘ ورنہ ان کا ’’رخِ زیبا‘‘ اور واضح ہو جائیگا۔ نواز شریف ایک بڑی سیاسی پارٹی کے قائد ہیں‘ انکے بارے میں تو ان کو بوکھلاہٹ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے اتنا ہی کہہ دینا چاہیے‘ ’’چہ نسبت خاک را بعالمِ پاک‘‘ ان کیلئے بہترین راستہ یہی ہے کہ سلمان رشدی کی طرح بیرونی دنیا میں بیریوں کے بیر چنیں اور لطف اندوز ہوں‘ وہ ایک سپاہی تھے‘ شومئی قسمت کہ وہ اس ملک کے سربراہ بن گئے۔
قدرت نے انہیں موقع دیا مگر انہوں نے اسے اس طرح سے ضائع کر دیا کہ اس طرح تو کوئی گھر کا کوڑا بھی ضائع نہیں کرتا۔ اگر انہیں عاقبت یاد ہے تو اپنا گیٹ اپ بدل کر صدقِ دل سے اللہ اللہ کریں‘ اس لئے کہ انکی فردِ جرم بڑی طویل ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے‘ پراجیکٹس کی شفافیت کیلئے حکومت سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھائے‘ گوادر سے چین پائپ لائن تعمیر کرنے کی ہدایت کی۔
اچھی بات بہرحال اچھی ہوتی ہے‘ اگر صدر اس ملک کو سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھانے کی بات کر رہے ہیں اور ہدایات جاری کر رہے ہیں تو یہ فی الواقع ایک اچھا قدم ہے جس کی تحسین کرنی چاہیے اور پھر اسکے باوجود کہ اس وقت امریکہ پاکستان پر چھانے کی کوشش میں ہے‘ یہ ہدایت جاری کرنا بڑی ہدایت یافتہ بات ہے کہ گوادر سے چین پائپ لائن تعمیر کی جائے۔ وہ جانتے ہیں کہ گوادر پر امریکہ کی نظر ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ چین کا گوادر میں کوئی عمل دخل ہو۔ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ اب امریکہ کا زاویہ بلوچستان بن چکا ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ صدر کے کئی کاموں میں سقم بھی ہونگے یا انکی ذات پر اعتراضات بھی‘ مگر وہ محب وطن ہیں اور موقع پر کارروائی کرنے سے چوکتے بھی نہیں۔ پاکستان میں امریکہ نے جو اودھم مچا رکھا ہے اور بلیک واٹر اور ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکہ کو جو چھوٹ دے رکھی ہے‘ انکی جانب بھی توجہ دیں‘ بہرصورت صدر کی یہ بات قابل ستائش ہے کہ وہ بتدریج چین کی طرف توجہ بڑھا رہے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی جس نرمی سے اداروں کے تصادم سے بچنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اس میں صدر کی سوچ‘ ہدایت اور مشورہ بھی شامل ہے البتہ عوامی مسائل حل نہیں ہو رہے۔ مہنگائی اور بالخصوص مہنگی بجلی عوام کیلئے درد سر ہے۔
٭…٭…٭…٭
افغانستان میں امریکہ اور اتحادیوں کے ایک دوسرے سے بے پروا 10 گروپ برسر پیکار ہیں‘ کوئی مشترکہ انچارج ہے نہ کوئی کسی کا ماتحت‘ کوئی دوسرے کو نہیں بتاتا کہ وہ کیا اور کیوں کر رہا ہے؟
افغانستان‘ امریکہ کے منہ میں چھچھوندر ہے‘ جسے وہ نگل سکتا ہے نہ اگل سکتا ہے البتہ اتنا ہو رہا ہے کہ امریکہ اسکے اتحادیوں کی یہ حالت ہے…ع
ایں راہ کہ تو میروی اے اعرابی بترکستان است
(یہ راستہ جو تم چل رہے ہو‘ یہ تو منال تک جاتا ہی نہیں)
کیسی بوالعجبی ہے کہ امریکہ نے ہنستے بستے افغانستان کو تباہ و برباد کرکے آج یہ مقام پایا کہ افغانستان میں اسکے اتحادی طوائف الملوکی کا شکار ہیں۔ کسی کو خبر نہیں کہ وہ یہ جنگ کیوں لڑ رہے ہیں جبکہ حاصل بھی کچھ نہیں ہو رہا۔ عراق میں بھی یہی کچھ ہوا اور امریکہ آج وہاں پھنسا ہوا ہے۔ نہ آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے‘ شاید تنگ آکر اس نے اب پاکستان کا رخ کرلیا ہے جو کہ ایک ایٹمی قوت ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ وہ یہاں بھی نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے کا بے مقصد کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ اوباما صاحب کو اس رپورٹ کا بغور مطالعہ کرلینا چاہیے جو جنرل ڈگلس نے بش کو تیار کرکے دی تھی اور اسے پردہ راز میں رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
اقبال نے کہا تھا‘ ’’اسکے کوہ و دمن سے ملا کو نکال دو‘‘ مٹھی بھر طالبان جو اسلام کا اصل زر ہیں‘ انہوں نے ایک سپرپاور ہی کو نہیں‘ اسکے اتحادیوں کو بھی ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں مگر یہ ہٹ دھرمی ہے حملہ آوروں کی کہ وہ پھر بھی لگے ہوئے ہیں جو انکی اصل نیت کی عکاسی ہے۔