پاکستان کی سیاست کا اپنا ایک منفرد انداز ہے۔ یہ موچی دروازے کی للکاروں سے شروع ہوتی ہوئی بھٹو کو کوہالے کے پل پر پھانسی کی بڑھک براستہ خون کھولنے کے بابر اعوان اور رانا ثنااللہ کی دشنام طرازیوں پر آ پہنچی ہے جسے آج کی سیاست میں T-20 میچ کے آخری اوورز کا پاور پلے Power Play کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ پاکستان کی سیاست کے آغاز میں یہ بڑے بڑے جاگیرداروں کے ڈرائنگ رومز تک محدود تھی۔ ممتاز دولتانہ، نوابزادہ نصراللہ جوڑ توڑ کے بادشاہ سمجھے جاتے تھے۔ اسکے ساتھ ہی مذہبی جماعتوں کے لیڈران جن کی اکثریت پاکستان کی تخلیق کیخلاف تھی انہوں نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے سیاست میں مذہب کی آمیزش کر دی جسکے نتیجے میں پاکستانی معاشرہ عقائد اور فقہ کی بنیاد پر تعصب اور تقسیم کا شکار ہو گیا۔
ایوب خان کے غاصبانہ اقتدار نے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کو اس طرح فروغ دیا کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی بنیاد پر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ تاہم اس میں نہ بھٹو اور نہ مجیب کا قصور تھا۔ یہ یحیٰی خان اور جنرل نیازی کی شراب اور شباب میں لپٹی ہوئی قیادت کی وجہ سے پاکستانی آرمی کی شکست تھی جسکے نتیجے میں ہمارے 92ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ بھٹو کی سفارتکاری کی مہارت سے ہمارے جنگی فوجیوں کو قید سے رہائی ملی مگر ضیاالحق اور اسکے طالع آزما جرنیلوں اور پنجابی ججوں کی باہمی گٹھ جوڑ اور انکے سیاسی، معاشی مفادات نے اپنے محسن کا جوڈیشل مرڈر کر دیا جسکی وجہ سے پوری قوم میں سیاسی محاذ آرائی اور پولرائزیشن نے جنم لیا اور آج بھی ہماری قوم بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم ہو کر اپنے سیاسی قائد منتخب کر رہی ہے‘ اسی لئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے دشمن پرویز مشرف کو چھوڑ کر یہ اعلان کر رہی ہے کہ پاکستان کوئی بھٹو کے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب! کیا پاکستان کی سیاست میں بھٹوز کی طرح کوئی لیڈر سر مقتل آیا ہے۔ جی ہاں پاکستان بھٹو کے علاوہ ضیاالحق کے باپ کی بھی جاگیر نہیں ہے۔ یہ جاگیر قائداعظم کی ضرور ہے۔ جہاں پاکستانیت کی بنیاد پر سیاست ہونی چاہئے‘ مگر دکھائی دیتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر ہمارے سیاست دانوں کو 90کی دہائی میں واپس لے گئی ہے۔
پیپلز پارٹی گذشتہ 62 سال سے پنجاب، فوج اور بیوروکریسی کے مشترکہ الائنس کے ظلم و ستم اور جبر کا شکار ہے۔ اس دوران اسکو ضیا آمریت کیخلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے جنگ لڑنا پڑی۔ ان کا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر چڑھ گیا۔ ہزاروں کارکنوں نے جیلیں کاٹیں اور کوڑے کھائے۔ شہید ہوئے۔ گیارہ سالوں کی طویل آمریت کی سیاہ رات کے خاتمے پر اسے محض 40ماہ کا ادھورا اقتدار ملا۔ اسکے بعد پیپلز پارٹی سیف الرحمن کے احتساب کا شکار ہو گی۔ وہ سیف الرحمن جس کو سٹیٹ بینک نے 11ارب روپے کا قرضہ معاف کیا۔ اسے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے پر لگا دیا گیا تھا۔ رانا مقبول نے لاہور سے انسپکٹر نوید کو طلب کیا کہ کیسے آصف علی زرداری کو ہلاک کرنا ہے مگر بقول شہباز شریف انہوں نے سازش کا پتہ چلنے کے بعد بڑی مشکل سے سیف الرحمن کو باز رکھا۔ 2008ء میں بینظیر بھٹو این آر او کے تحت پاکستان واپس آئی تو نواز شریف کی بھی پاکستان واپسی کی راہ ہموار ہو گئی۔ نواز شریف تو الیکشن کا بائیکاٹ کر رہے تھے مگر بے نظیر کی سیاسی بصیرت نے انہیں ایسا کرنے سے روکا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد نواز شریف دوبارہ سیاست میں معراج پا گئے مگر کٹی پھٹی پیپلز پارٹی کو ابھی تک پانچ جولائی 1977ء اور جسٹس مولوی مشتاق کی سوچ اور فکر والے حالات کا سامنا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے پیپلز پارٹی کا خون خاک نشیناں ہے جسکے مقدر میں رزق خاک بننے کے سوا کچھ نہیں۔ بھٹو اور بینظیر کے اصلی وارثوں کو انکے اپنوں نے جیلوں، پھانسیوں اور شہادتوں کے بدلے کیا صلہ دیا؟ کیا سانحہ کازساز اور بے نظیر بھٹو کیساتھ شہید ہونیوالے کارکنوں نے انکے وارثوں کا ہاتھ تھاما؟ وہ تو تمغہ جمہوریت جنرل اسلم بیگ کو دیتے ہیں۔ وہ تو گارڈ آف آنر جنرل پرویز مشرف کو پیش کرتے ہی۔ وہ تو دس لاکھ روپے ماہوار پر پی ٹی وی کا چیئرمین ڈاکٹر شاہد مسعود کو بناتے ہیں۔ جناب بھٹو کیساتھ عشق اور پیپلز پارٹی کیساتھ رومانس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ رحمان ملک، فاروق نائیک، بابر اعوان بھی آپکو مظلوم جیالے دکھائی دینے لگیں۔ ٹھیک ہے سیاست میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، سلمان تاثیر وغیرہ نے جیلیں کاٹیں مگر ان صعوبتوں کے بدلے آج وہ ارب پتی ہیں‘ جب کسی سیاسی جدوجہد کے بدلے آپ کے ذاتی مفادات کو تحفظ حاصل ہو جائے تو پھر جمہوریت کے چیمپئن بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک موجودہ حکومت کی کرپشن‘لاقانونیت اور بری گورننس کے معاملات ہیں تو اس پر صرف اتنا ہی کہوں گا…؎
میں خود تھا اپنی جان کے پیچھے پڑا ہوا
میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں تھا
قارئین۔ ہماری سیاست ایک منفعت بخش کاروبار ہے۔ پہلے ہماری سیاست میں سٹیٹس کو (status quo) کو تحفظ دینے والوں میں مفاد پرست جاگیرداروں، صنعتکاروں، منشیات فروشوں، کرپٹ بیورو کریسی ٹاپ براس طالع آزما جرنیل، لینڈ مافیا اور سٹاک ایکسچینج ڈیلرز سٹیک ہولڈرز تھے مگر اب پاکستان کی سیاست میں طاقت کے نئے مراکز ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جن کے اپنے اپنے معاشی مفادات اور سیاسی ایجنڈے ہیں۔ ہماری موجودہ سیاست میں عوام کے حقیقی حقوق کی بحالی کیلئے کوئی بھی نہیں جدوجہد کر رہا ہے۔ جہاں امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے حکمران ہماری سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہیں تین نئی ابھرنے والی طاقتیں بھی اقتدار میں اپنا کردار اور حصہ مانگ رہی ہیں۔ یہ تین قوتیں طالبان‘ بنچ اور بار اور طاقتور میڈیا کا وہ گروپ ہے جس نے حکومت کے اربوں روپے کے ٹیکس ادا کرنے ہیں۔ اب اقتدار کے سٹیٹس کو (Status Quo) کی تکون آکٹوپس کی شکل میں طاقت کے آٹھ مراکز کے کونوں پر براجمان نظر آتی ہے۔
جب سیاست میں طاقتور کھلاڑی اپنے اپنے مفادات کا اکیلے تحفظ نہیں کر سکتے ہیں تو پھر وہ الائنس قائم کر لیتے ہیں۔ اس وقت اقتدار کی جنگ میں ایک طرف مسلم لیگ (ن) میڈیا، بنچ اور بار ہیں تو دوسری طرف چھوٹے صوبوں کی سیاسی قوتیں، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کا الائنس ہے مگر اقتدار کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا فیکٹر یعنی فوج اور امریکہ ابھی تک غیرجانبدار ہیں اور وہ میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کا لمٹس ٹیسٹ کروا رہے ہیں جبکہ عمران خان، مشرف، مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسلامی اس پاور گیم میں پریشر گروپ کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ گوجر خان کے درویش فریش گولڈ لیف کی ڈبیا پر عمران خان کا نام طاقتور حلقے میں بھیج چکے ہیں۔ فریش گولڈ لیف کے سگریٹ کی ڈپلومیسی کے متعلق محض استاد محترم ہارون الرشید ہی بتا سکتے ہیں۔ بہرحال سیاسی رسہ کشی کا کھیل جاری ہے۔ نواز شریف کو دسمبر 2010ء سے پہلے سعودی عرب سے کلیرنس نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ دو تہائی اکثریت کے بغیر پاکستان کا ’’بادشاہ‘‘ نہیں بننا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے بابر اعوان کیمطابق مسلم لیگ (ن) میں وزیراعظم کے دس سے بارہ امیدوار ہیں۔ صوبہ پختونخواہ میں طالبان نے اے این پی کی حکومت کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے اور وہاں صوبائی حکمرانوں نے کرپشن کا غدر مچایا ہوا ہے ہماری سیاست میں کس طرح طاقتور عناصر اپنے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ سرحد میں طالبان اے این پی کیخلاف ہیں۔ مگر کراچی میں طالبان اور اے این پی ایم کیو ایم کیخلاف صف آرا ہے۔ کراچی جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اس پر کنٹرول کرنے کیلئے کئی گینگ کام کر رہے ہیں۔ وہاں ایم کیو ایم کو خطرہ ہے کہ اگر پاکستان کے دوسرے صوبوں سے مسلسل لوگ کراچی شفٹ کرتے گئے تو ایک دن کراچی کا ڈیموگرافک توازن انکی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیگا۔ صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار میں حلیف بھی ہیں مگر محاذ آرائی بھی جاری ہے جس کی وجہ سے بیورو کریسی نے شہباز شریف کی حکومت کو ناکام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ۔
2007ء میں لاہور سے سیالکوٹ موٹر وے کا منصوبہ پرویز الٰہی حکومت نے 20ارب روپے میں ایک فرم کو ٹھیکے میں دیا۔ مگر چونکہ یہ منصوبہ پرویز الٰہی کا تھا لہٰذا اس کو فوراً ختم کر دیا گیا مگر آج دو سال بعد 70ارب روپے میں دوبارہ اسی فرم کو یہ سڑک تعمیر کرنے کا ٹھیکہ دیدیا گیا۔ بتائیے قوم کے 50ارب روپے کا ضیاع کس کی گردن پر ہے؟ 19ویں گریڈ کے احد چیمہ کو پہلے سیکرٹری ایجوکیشن لگایا گیا۔ وہ روزانہ اساتذہ کے لیڈران کیساتھ ہاتھا پائی کرتے تھے۔ اب وہ DCO لاہور بنا دیے گئے ہیں اور ان کے ماتحت 20گریڈ کے افسران خاک کام کرینگے۔
الذوالفقار فیم راجہ انور ہماری تعلیم کو ٹھیک کر رہے ہیں اور پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں ساری عمر وہ کابل میں گوریلا جنگ کی تربیت حاصل کر کے ریاست کیخلاف جنگ لڑتے رہے۔ آج پیپلز پارٹی کے یہ جیالے شہباز شریف کی آنکھ کا تارہ ہیں۔ پنجاب میں ایسے ایسے فنکار بیورو کریٹ ہیں جو وفاق اور پنجاب حکومت کا تصادم کروانا چاہ رہے ہیں۔ کبھی وہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی قتل کی رپورٹ میڈیا کو جاری کرتے ہیں تو کبھی وہ لاہور کے وکیلوں کی پٹائی کرواتے ہیں۔ غالب کے شعر میں تھوڑے ردوبدل کے ساتھ …؎
بازیچہ اطفال ہے ’’سیاست‘‘ میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
ہمارے ملک کے محب وطن عوام کو سوچنا ہے کہ کیا یہ سیاسی تھیٹر پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ہماری معیشت سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ مہنگائی میں گذشتہ دو سالوں میں 50فیصد اضافہ ہوا ہے اور روپیہ 25فیصد تک ڈی ویلیو ہو چکا ہے۔ اور محض تین سالوں میں گولڈ کی قیمت میں 224فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ہمارے دوست طلعت عباس نے آصف زرداری کو نیلسن منڈیلا قرار دیا تھا۔ مگر کیا نیلسن منڈیلا بھی دنیا کا چھٹا بڑا امیر آدمی نہیں ہے۔ ابن خلدون نے برسوں پہلے یہ سیاسی حقیقت بتادی تھی کہ اگر کوئی تاجر تمہارا حکمران ہو گا تو وہ قوم تباہ و برباد ہو جائیگی۔ ہماری سیاست، تجارت، ہماری سیاسی جماعتیں برانڈڈ کارپوریشن بن چکی ہیں۔ ایسے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ…؎
جو میرے درد کی آواز سمجھ سکتا ہو
اے زمانے، کوئی ایسا بھی خدا دے مجھ کو
اور …؎
بدلنا چاہتا ہوں اس زمیں کو
یہ کار آسماں کیسے کروں میں
ایوب خان کے غاصبانہ اقتدار نے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کو اس طرح فروغ دیا کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی بنیاد پر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ تاہم اس میں نہ بھٹو اور نہ مجیب کا قصور تھا۔ یہ یحیٰی خان اور جنرل نیازی کی شراب اور شباب میں لپٹی ہوئی قیادت کی وجہ سے پاکستانی آرمی کی شکست تھی جسکے نتیجے میں ہمارے 92ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ بھٹو کی سفارتکاری کی مہارت سے ہمارے جنگی فوجیوں کو قید سے رہائی ملی مگر ضیاالحق اور اسکے طالع آزما جرنیلوں اور پنجابی ججوں کی باہمی گٹھ جوڑ اور انکے سیاسی، معاشی مفادات نے اپنے محسن کا جوڈیشل مرڈر کر دیا جسکی وجہ سے پوری قوم میں سیاسی محاذ آرائی اور پولرائزیشن نے جنم لیا اور آج بھی ہماری قوم بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم ہو کر اپنے سیاسی قائد منتخب کر رہی ہے‘ اسی لئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے دشمن پرویز مشرف کو چھوڑ کر یہ اعلان کر رہی ہے کہ پاکستان کوئی بھٹو کے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب! کیا پاکستان کی سیاست میں بھٹوز کی طرح کوئی لیڈر سر مقتل آیا ہے۔ جی ہاں پاکستان بھٹو کے علاوہ ضیاالحق کے باپ کی بھی جاگیر نہیں ہے۔ یہ جاگیر قائداعظم کی ضرور ہے۔ جہاں پاکستانیت کی بنیاد پر سیاست ہونی چاہئے‘ مگر دکھائی دیتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر ہمارے سیاست دانوں کو 90کی دہائی میں واپس لے گئی ہے۔
پیپلز پارٹی گذشتہ 62 سال سے پنجاب، فوج اور بیوروکریسی کے مشترکہ الائنس کے ظلم و ستم اور جبر کا شکار ہے۔ اس دوران اسکو ضیا آمریت کیخلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے جنگ لڑنا پڑی۔ ان کا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر چڑھ گیا۔ ہزاروں کارکنوں نے جیلیں کاٹیں اور کوڑے کھائے۔ شہید ہوئے۔ گیارہ سالوں کی طویل آمریت کی سیاہ رات کے خاتمے پر اسے محض 40ماہ کا ادھورا اقتدار ملا۔ اسکے بعد پیپلز پارٹی سیف الرحمن کے احتساب کا شکار ہو گی۔ وہ سیف الرحمن جس کو سٹیٹ بینک نے 11ارب روپے کا قرضہ معاف کیا۔ اسے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے پر لگا دیا گیا تھا۔ رانا مقبول نے لاہور سے انسپکٹر نوید کو طلب کیا کہ کیسے آصف علی زرداری کو ہلاک کرنا ہے مگر بقول شہباز شریف انہوں نے سازش کا پتہ چلنے کے بعد بڑی مشکل سے سیف الرحمن کو باز رکھا۔ 2008ء میں بینظیر بھٹو این آر او کے تحت پاکستان واپس آئی تو نواز شریف کی بھی پاکستان واپسی کی راہ ہموار ہو گئی۔ نواز شریف تو الیکشن کا بائیکاٹ کر رہے تھے مگر بے نظیر کی سیاسی بصیرت نے انہیں ایسا کرنے سے روکا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد نواز شریف دوبارہ سیاست میں معراج پا گئے مگر کٹی پھٹی پیپلز پارٹی کو ابھی تک پانچ جولائی 1977ء اور جسٹس مولوی مشتاق کی سوچ اور فکر والے حالات کا سامنا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے پیپلز پارٹی کا خون خاک نشیناں ہے جسکے مقدر میں رزق خاک بننے کے سوا کچھ نہیں۔ بھٹو اور بینظیر کے اصلی وارثوں کو انکے اپنوں نے جیلوں، پھانسیوں اور شہادتوں کے بدلے کیا صلہ دیا؟ کیا سانحہ کازساز اور بے نظیر بھٹو کیساتھ شہید ہونیوالے کارکنوں نے انکے وارثوں کا ہاتھ تھاما؟ وہ تو تمغہ جمہوریت جنرل اسلم بیگ کو دیتے ہیں۔ وہ تو گارڈ آف آنر جنرل پرویز مشرف کو پیش کرتے ہی۔ وہ تو دس لاکھ روپے ماہوار پر پی ٹی وی کا چیئرمین ڈاکٹر شاہد مسعود کو بناتے ہیں۔ جناب بھٹو کیساتھ عشق اور پیپلز پارٹی کیساتھ رومانس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ رحمان ملک، فاروق نائیک، بابر اعوان بھی آپکو مظلوم جیالے دکھائی دینے لگیں۔ ٹھیک ہے سیاست میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، سلمان تاثیر وغیرہ نے جیلیں کاٹیں مگر ان صعوبتوں کے بدلے آج وہ ارب پتی ہیں‘ جب کسی سیاسی جدوجہد کے بدلے آپ کے ذاتی مفادات کو تحفظ حاصل ہو جائے تو پھر جمہوریت کے چیمپئن بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک موجودہ حکومت کی کرپشن‘لاقانونیت اور بری گورننس کے معاملات ہیں تو اس پر صرف اتنا ہی کہوں گا…؎
میں خود تھا اپنی جان کے پیچھے پڑا ہوا
میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں تھا
قارئین۔ ہماری سیاست ایک منفعت بخش کاروبار ہے۔ پہلے ہماری سیاست میں سٹیٹس کو (status quo) کو تحفظ دینے والوں میں مفاد پرست جاگیرداروں، صنعتکاروں، منشیات فروشوں، کرپٹ بیورو کریسی ٹاپ براس طالع آزما جرنیل، لینڈ مافیا اور سٹاک ایکسچینج ڈیلرز سٹیک ہولڈرز تھے مگر اب پاکستان کی سیاست میں طاقت کے نئے مراکز ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جن کے اپنے اپنے معاشی مفادات اور سیاسی ایجنڈے ہیں۔ ہماری موجودہ سیاست میں عوام کے حقیقی حقوق کی بحالی کیلئے کوئی بھی نہیں جدوجہد کر رہا ہے۔ جہاں امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے حکمران ہماری سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہیں تین نئی ابھرنے والی طاقتیں بھی اقتدار میں اپنا کردار اور حصہ مانگ رہی ہیں۔ یہ تین قوتیں طالبان‘ بنچ اور بار اور طاقتور میڈیا کا وہ گروپ ہے جس نے حکومت کے اربوں روپے کے ٹیکس ادا کرنے ہیں۔ اب اقتدار کے سٹیٹس کو (Status Quo) کی تکون آکٹوپس کی شکل میں طاقت کے آٹھ مراکز کے کونوں پر براجمان نظر آتی ہے۔
جب سیاست میں طاقتور کھلاڑی اپنے اپنے مفادات کا اکیلے تحفظ نہیں کر سکتے ہیں تو پھر وہ الائنس قائم کر لیتے ہیں۔ اس وقت اقتدار کی جنگ میں ایک طرف مسلم لیگ (ن) میڈیا، بنچ اور بار ہیں تو دوسری طرف چھوٹے صوبوں کی سیاسی قوتیں، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کا الائنس ہے مگر اقتدار کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا فیکٹر یعنی فوج اور امریکہ ابھی تک غیرجانبدار ہیں اور وہ میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کا لمٹس ٹیسٹ کروا رہے ہیں جبکہ عمران خان، مشرف، مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسلامی اس پاور گیم میں پریشر گروپ کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ گوجر خان کے درویش فریش گولڈ لیف کی ڈبیا پر عمران خان کا نام طاقتور حلقے میں بھیج چکے ہیں۔ فریش گولڈ لیف کے سگریٹ کی ڈپلومیسی کے متعلق محض استاد محترم ہارون الرشید ہی بتا سکتے ہیں۔ بہرحال سیاسی رسہ کشی کا کھیل جاری ہے۔ نواز شریف کو دسمبر 2010ء سے پہلے سعودی عرب سے کلیرنس نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ دو تہائی اکثریت کے بغیر پاکستان کا ’’بادشاہ‘‘ نہیں بننا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے بابر اعوان کیمطابق مسلم لیگ (ن) میں وزیراعظم کے دس سے بارہ امیدوار ہیں۔ صوبہ پختونخواہ میں طالبان نے اے این پی کی حکومت کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے اور وہاں صوبائی حکمرانوں نے کرپشن کا غدر مچایا ہوا ہے ہماری سیاست میں کس طرح طاقتور عناصر اپنے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ سرحد میں طالبان اے این پی کیخلاف ہیں۔ مگر کراچی میں طالبان اور اے این پی ایم کیو ایم کیخلاف صف آرا ہے۔ کراچی جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اس پر کنٹرول کرنے کیلئے کئی گینگ کام کر رہے ہیں۔ وہاں ایم کیو ایم کو خطرہ ہے کہ اگر پاکستان کے دوسرے صوبوں سے مسلسل لوگ کراچی شفٹ کرتے گئے تو ایک دن کراچی کا ڈیموگرافک توازن انکی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیگا۔ صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار میں حلیف بھی ہیں مگر محاذ آرائی بھی جاری ہے جس کی وجہ سے بیورو کریسی نے شہباز شریف کی حکومت کو ناکام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ۔
2007ء میں لاہور سے سیالکوٹ موٹر وے کا منصوبہ پرویز الٰہی حکومت نے 20ارب روپے میں ایک فرم کو ٹھیکے میں دیا۔ مگر چونکہ یہ منصوبہ پرویز الٰہی کا تھا لہٰذا اس کو فوراً ختم کر دیا گیا مگر آج دو سال بعد 70ارب روپے میں دوبارہ اسی فرم کو یہ سڑک تعمیر کرنے کا ٹھیکہ دیدیا گیا۔ بتائیے قوم کے 50ارب روپے کا ضیاع کس کی گردن پر ہے؟ 19ویں گریڈ کے احد چیمہ کو پہلے سیکرٹری ایجوکیشن لگایا گیا۔ وہ روزانہ اساتذہ کے لیڈران کیساتھ ہاتھا پائی کرتے تھے۔ اب وہ DCO لاہور بنا دیے گئے ہیں اور ان کے ماتحت 20گریڈ کے افسران خاک کام کرینگے۔
الذوالفقار فیم راجہ انور ہماری تعلیم کو ٹھیک کر رہے ہیں اور پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں ساری عمر وہ کابل میں گوریلا جنگ کی تربیت حاصل کر کے ریاست کیخلاف جنگ لڑتے رہے۔ آج پیپلز پارٹی کے یہ جیالے شہباز شریف کی آنکھ کا تارہ ہیں۔ پنجاب میں ایسے ایسے فنکار بیورو کریٹ ہیں جو وفاق اور پنجاب حکومت کا تصادم کروانا چاہ رہے ہیں۔ کبھی وہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی قتل کی رپورٹ میڈیا کو جاری کرتے ہیں تو کبھی وہ لاہور کے وکیلوں کی پٹائی کرواتے ہیں۔ غالب کے شعر میں تھوڑے ردوبدل کے ساتھ …؎
بازیچہ اطفال ہے ’’سیاست‘‘ میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
ہمارے ملک کے محب وطن عوام کو سوچنا ہے کہ کیا یہ سیاسی تھیٹر پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ہماری معیشت سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ مہنگائی میں گذشتہ دو سالوں میں 50فیصد اضافہ ہوا ہے اور روپیہ 25فیصد تک ڈی ویلیو ہو چکا ہے۔ اور محض تین سالوں میں گولڈ کی قیمت میں 224فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ہمارے دوست طلعت عباس نے آصف زرداری کو نیلسن منڈیلا قرار دیا تھا۔ مگر کیا نیلسن منڈیلا بھی دنیا کا چھٹا بڑا امیر آدمی نہیں ہے۔ ابن خلدون نے برسوں پہلے یہ سیاسی حقیقت بتادی تھی کہ اگر کوئی تاجر تمہارا حکمران ہو گا تو وہ قوم تباہ و برباد ہو جائیگی۔ ہماری سیاست، تجارت، ہماری سیاسی جماعتیں برانڈڈ کارپوریشن بن چکی ہیں۔ ایسے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ…؎
جو میرے درد کی آواز سمجھ سکتا ہو
اے زمانے، کوئی ایسا بھی خدا دے مجھ کو
اور …؎
بدلنا چاہتا ہوں اس زمیں کو
یہ کار آسماں کیسے کروں میں