کیری لوگر بل : حکومت اور سیاسی جماعتیں پس پردہ مقاصد پر کھلے عام رائے زنی سے گریزاں کیوں : تجزیاتی رپورٹ
لاہور ( معین اظہر سے) پاکستان کی حکومت سمیت تما م سیاسی جماعتیں کیری لوگر بل پر امریکہ کے اس خطے میں پس پردہ مقاصد پر اپنی کھلے عام رائے دینے سے گریز کر رہی ہیں جس کی وجہ سے بھارت کو اس خطے کی طاقت بنانے کے منصوبہ اور یو این سیکورٹی کونسل میں اس کو ویٹو پاور دینے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے اور اسکو روکنے کی کوئی حکمت عملی ہماری سیاسی قیادت دے رہی ہے نہ ہی پالیسی ساز ادارے دے رہے ہیں ۔ حکومت کیری لوگل بل کو پاس کر نے ، تمام شرائط کو پاکستان کی ڈکلیئرڈ پالیسی قرار دے کر منظور کر چکی ہے۔ تاہم یہ بات ابھی تک کسی سیاسی جماعت اور حکومت عہدے داروں نے نہیں کہی کہ امریکہ بھارت کو خطے کی سپر پاور بنانے کے لئے پاکستان پر اپنا اور بھارت کا دباو تیزی سے بڑھا رہا ہے اور پاکستان کی سیاسی قیادت اور اسٹبلشمنٹ کے موقف میں واضح فرق اور ایک دوسرے پر بداعتمادی کو بڑھا کر پاکستان کو خطے میں بھارتی تسلط قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک حکومت سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا ہے کہ ہماری ڈکلئیرڈ پالیسی یہ تھی ممبئی بم دھماکوں میں پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹر ملوث ہیں اور پاکستان ان کے خلاف کاروائی کررہا ہے لیکن کیری لوگل بل میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ آئندہ سے حکومت پاکستان ہمسایہ ممالک میں ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانے کی ذمہ دار ہوگی ۔ یہ امریکہ کو کسی نے نہیں کہا کہ جو ملک اپنے ملک کے اندر ہونے والی دہشت گردی نہیں روک سکتا وہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کس طرح روکے گا۔ پاکستان کی یہ اعلان کردہ پالیسی ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اس وقت تک خطے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی لیکن امریکہ نے آج تک کبھی اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشیش نہیں کی۔ اس کے علاوہ پاکستان کی طے کر دہ پالیسی تھی کہ وہ برابر ی کی سطح پر اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات چاہتے ہیں لیکن پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونے ، نان نیٹو اتحادی ہونے، ہزاروں فوجی شہید کروانے ، اپنے ہزاروں کی تعداد میں سویلین کو شہید کروانے، کے باوجود امریکہ کو یہ یقین نہیںدلا سکا کہ وہ اس جنگ میں سنجیدہ ہے اور اس کو اسلحے اور جدید ٹیکنالوجی ، اور انرجی کی ضرورت ہے اس پر امریکہ اب دیئے جانے والے اسلحے پر بھی شرائط عائد کررہا ہے کہ وہ خطے میں طاقت کے توازن کو خراب کرنے کے لئے اسلحہ نہیں دے گا۔ لیکن دوسری طرف وہ خطے میں بھارت کو سول نیوکلئیر ٹیکنالوجی فراہم کرکے، جدید ٹیکنالوجی دے کر ، فوجی طیارہ دے کر ، اور اسلحہ دے کر خطے کے توازن کو بھارت کے حق میں کر رہا ہے، کیا یہ ہماری پالیسی کے متضاد پالیسی نہیں ہے پھر بھی ہم نہیں بو ل رہے۔ کیا بھارت مزید فوجی طاقت ، ٹیکنالوجی حاصل کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق خودارادیت دے گا۔ پاکستان کافی عرصہ سے بلوچستان اور خصوصا کوئٹہ میں بھار ت کے ملوث ہونے کے ثبوت کی بات کر رہا ہے اب امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے کہتے ہیں کہ طالبا ن ملا عمر کوئٹہ میں موجود ہیں یہ کس طرح کے انٹیلی جنس ادارے ہیں کہ اپنے ملک نائن الیون کو ہونے والی دہشت گردی کو نہیں روک سکے عراق کے بارے میں جھوٹی رپورٹیں دیتے رہے۔ امریکہ کے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کا سراغ 9 سال سے نہیں لگا سکے ان کی رپورٹیں پاکستان کے بارے میں کس طرح ٹھیک ہوسکتی ہیں۔ امریکہ کو اپنے ٹیکس دہندگان کو تو جواب دینے کی فکر ہے مگر ہمارے سیاست دانوں کو جو فوجی اور عوام اس جنگ میں مررہے ہیں اس کی فکر کیوں نہیں ہے یہ امریکہ کو کس نے بتانا ہے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔